سیما علی
لائبریرین
غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے
کشش بلا کی تماشائے ناگوار میں ہے
دکھائی آج ہی آنکھوں نے صورت فردا
خزاں کی سیر بھی ہنگامۂ بہار میں ہے
غبار بن کے لپٹتی ہے دامن دل سے
مٹے پہ بھی وہی دل بستگی بہار میں ہے
دعائے شوق کجا ایک ہاتھ ہے دل پر
اور ایک ہاتھ گریبان تار تار میں ہے
ہنوز گوش بر آواز غیر ہے کوئی
امیدوار ازل اب تک انتظار میں ہے
قسم ہے وعدۂ صبر آزمائے جاناں کی
کہ لذت ابدی ہے تو انتظار میں ہے
دوا میں اور دعا میں تو اب اثر معلوم
بس اک امید اثر ضبط ناگوار میں ہے
چلے چلو دل دیوانہ کے اشارے پر
محال و ممکن تو سب اس کے اختیار میں ہے
کشش بلا کی تماشائے ناگوار میں ہے
دکھائی آج ہی آنکھوں نے صورت فردا
خزاں کی سیر بھی ہنگامۂ بہار میں ہے
غبار بن کے لپٹتی ہے دامن دل سے
مٹے پہ بھی وہی دل بستگی بہار میں ہے
دعائے شوق کجا ایک ہاتھ ہے دل پر
اور ایک ہاتھ گریبان تار تار میں ہے
ہنوز گوش بر آواز غیر ہے کوئی
امیدوار ازل اب تک انتظار میں ہے
قسم ہے وعدۂ صبر آزمائے جاناں کی
کہ لذت ابدی ہے تو انتظار میں ہے
دوا میں اور دعا میں تو اب اثر معلوم
بس اک امید اثر ضبط ناگوار میں ہے
چلے چلو دل دیوانہ کے اشارے پر
محال و ممکن تو سب اس کے اختیار میں ہے