باسم
محفلین
غلافِ کعبہ تری عظمتوں کا کیا کہنا
عروسِ حُسنِ ازل کا لباسِ نور ہَے تُو
گناہگار تِرا کیوں نہ چوم لیں دامن
امینِ رازِ وفا، جلوہ زارِ طُور ہے تُو
کمالِ فرض کا پیکر ہے تیری ہستی بھی
کسی کی ذات میں خُود کو مٹادیا تُو نے
ہر آن سینہ سپر ہے حرم کی خدمت میں
دلوں میں نقشِ محبت جمادیا تو نے
یہ تیرا جذبہٗ خدمت ہے رشک کے قابل
غبار دامنِ کعبہ تک آ نہیں سکتا
حوادثات کے طُوفاں ہزار ٹکرائیں
تو اپنے فرض کو لیکن بھلا نہیں سکتا
تجھے نصیب ہے قربت حرم کے سینے سے
حریمِ حُسنِ حقیقت کا رازدار ہے تُو
ہے تیرا مقصدِ ہستی حرم کی زیبائش
نگارِ حسن و تجلّی کا پردہ دار ہے تو
درِ حرم کے محافظ ادائے فرض کے بعد
جہاں بھی اہلِ وفا تجھ کو دیکھ پائیں گے
سکوںِ قلب کی خاطر لگا کے سینے سے
ہر اک تار تِرا، تارِ جاں بنائیں گے
غلافِ کعبہ قسم مجھ کو ربِّ کعبہ کی
تجھے جو دیکھا تو آنکھوں میں اشک بھر آئے
تصوّرات کی دنیا میں ایک ہلچل ہے
جو دل میں داغ تھے پوشیدہ وہ نکھر آئے
نہ پُوچھ مجھ سے کہ میں گم ہوں کن خیالوں میں
گزر رہی ہے جو دل پر بتا نہیں سکتا
ٹپک رہے ہیں یہ کیوں اشک آج آنکھوں سے
تری نظر سے نظر کیوں مِلا نہیں سکتا
یہ سوچتا ہوں بھلا مجھ کو تجھ سے کیا نسبت
زمینِ عجز ہوں میں رشکِ آسماں تو ہے
میں ایک راہِ محبت کا راہ گم کردہ
حریمِ منزلِ محبوب کا نشاں تو ہے
شرف مجھے بھی تھا حاصل حرم کی خدمت کا
مگر یہ فرضِ محبت بھلا دیا میں نے
مرا ضمیر بھی بیدار تھا کبھی، لیکن
ہوس کی گود میں اس کو سلا دیا میں نے
مجھے بھی ناز تھا کعبہ کی پاسبانی پر
حرم کے حُسنِ نہاں کا تھا راز داں میں بھی
سرِ نیاز میں تھی شان کج کلاہی کی
غمِ حبیب سے رہتا تھا شادماں میں بھی
غرورِ علم جہالت کی راہ پر لایا
حرم کی راہ سے بیگانہ کردیا مجھ کو
میں ایک رازِ حقیقت تھا بزمِ دنیا میں
مگر خرد نے اک افسانہ کردیا مجھ کو
درِ حرم سے جدا ہوکے تیرہ بختی سے
جہاں میں خود کو تماشا بنادیا میں نے
وہ دل جو مرکزِ انوارِ حق تھا اس دل کو
بُتانِ حرص و ہوس سے سجادیا میں نے
تھا میرا فرض حرم کا پیام پہنچانا
چمن میں دشت میں صحرا میں خشک میں تَر میں
حرم سے خیر کی دولت لیے ہوئے نکلا
اُلجھ کے رہ گیا لیکن میں دامنِ شر میں
گناہگارِ محبت ہوں اے غلافِ حرم
کھڑا ہوں شرم و ندامت سے سر جھکائے ہوئے
مجھے سنبھال خدا کیلیے سنبھال مجھے
شکستہ دل ہوں قدم بھی ہیں لڑکھڑائے ہوئے
ادا شناسِ وفا اے حرم کے پیراہن
مرے لیے بھی سرِ ملتزم دعا کرنا
عطا ہو پھر مجھے احساسِ فرض کی دولت
نصیب پھر ہو حرم سے مجھے وفا کرنا
دیارِ حُسن و تجلّی کے راہرو تجھ پر
یہ چند اشکِ ندامت نثار کرتا ہوں
خزاں نصیبِ چمن ہوں میں اے نسیمِ حرم
دعائے آمد فصلِ بہار کرتا ہوں
جس سال غلافِ کعبہ تیار کرنے کی سعادت پاکستان کو حاصل ہوئی اسی سال یہ نظم کہی گئی