جوش غلاموں سے خطاب - حضرت جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
اے ہند کے ذلیل غلامانِ روسیاہ!
شاعر سے تو ملاؤ خدا کے لیے نگاہ
اِس خوفناک رات کی آخر سحر بھی ہے؟
توپیں گرج رہی ہیں سروں پر خبر بھی ہےِ؟
اے امتِ شکستہ دل و اے گروہِ شل!
کب سے بلا رہا ہوں میں تجھ کو سوئے عمل!
تجھ پر مرے کلام کا ہوتا نہیں اثر
چونکا رہا ہوں کب سے میں شانے جھنجھوڑ کر
حالانکہ میرا شعر ہے وہ حرفِ تند و تیز
طوفاں بدوش و صاعقہ پیما و حشر خیز
ضد پر جو آئے، بات میں پتھر کو توڑ دے
صرف اک صدا سے گنبدِ بے در کو توڑ دے
چاہے تو زمہریر سے اُڑنے لگیں شرار
گلبرگِ تر کے بطن سے پیدا ہو ذوالفقار
اُکسائے میرا شعر اگر جذبہ ہائے جنگ
پیدا ہو آبگینے کے اندر مزاجِ سنگ
خرمن میں میرا شعر اگر کج کرے کلاہ
خس تند بجلیوں سے لڑانے لگے نگاہ
آہن کے جوہروں سے ٹپکنے لگے شراب
پیری کی ہڈیوں میں مچلنے لگے شباب
تجھ کو یقیں نہ آئے گا اے دائمی غلام!
میں جا کے مقبروں میں سناؤں اگر کلام
خود موت سے حیات کے چشمے ابل پڑیں
قبروں سے سر کو پیٹ کے مردے نکل پڑیں
میرے رجز سے لرزہ بر اندام ہے زمیں
افسوس تیرے کان پہ جوں رینگتی نہیں
تُو چپ رہا، زمین ہلی، آسماں ہلا
تجھ سے تو کیاَ، خدا سے کروں گا میں یہ گلا
اِن بزدلوں کے حُسن پہ شیدا کیا ہے کیوں؟
نامرد قوم میں مجھے پیدا کیا ہے کیوں؟
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۳ء
 
Top