غلام بھیک نیرنگ کی کتاب "اقبال کے بعض حالات" سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
غلام بھیک نیرنگ کی کتاب "اقبال کے بعض حالات" سے اقتباس
"۔۔۔ایک روز شام کے قریب میں اور چودھری جلال دین مرحوم بورڈنگ ہاؤس سے شہر کو گئےبھاٹی دروازہ کے قریب پہنچے تو سامنے سے ایک سادہ وضع گورے چٹے ،کشیدہ قامت، جوان رعنا آتے ہوئے دکھائی دئیے۔چودھری صاحب نے کہا کہ شیخ محمد اقبال جن کا میں نے ذکر کیاتھا آرہے ہیں جب ہم ایک دوسرے کے قریب پہنچےتو سب ٹھہر گئے۔چودھری صاحب نے میرا تعارف کرایا اس کے بعد ہم اپنے اپنے راستے چلے گئے۔معلوم ہوا کہ اقبال اس وقت بھاٹی دروازہ کے اندر شیخ گلاب دین مرحوم کے مکان پر رہ رہے تھے ۔شیخ صاحب موصوف بھی سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ۔عدالت ہائے لاہور میں عرصہ دراز سے مختار کی حیثیت سے پریکٹس کرتے تھے اور لاہور میں جائداد حاصل کر لی تھی۔اس کے بعد اقبال سے تعلق کی وجہ سے شیخ گلاب دین سے ہم لوگوں کا بھی تعارف اور تعلق ہوا اور کئی مرتبہ ان کے بالا خانے میں بیٹھ کر ہم نے محرم کا جلوس دیکھا۔​
بھاٹی دروازے کے باہر جو اقبال سے سر راہ سرسری ملاقات ہوئی ، تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ ان کا کلام سننا یا دیکھنا چاہئیے ، دیکھین تو ہ شعر کیسے کہتے ہیں۔ میں نے چودھری جلال دین سے کہا کہ ان سے ان کے کچھ اشعار لائیے۔ ، میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔دو ایک روز کے بعد چودھری صاحب ایک پرچہ لائے اس پر اقبال کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک غزل تھی ، جس کے یہ دو شعر اس وقت تک یاد ہیں​
بر سر زینت جو شمع محفل جانانہ ہے​
شانہ اس کی زلف پیچاں کا پر پروانہ ہے​
پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے تجھے​
چال سے خالی کہاں یہ لغزش مستانہ ہے​
میں دیکھتا ہو کہ بانگ درا میں یہ غزل نہیں ہے ۔یہ بھی میرے عمل میں ہے کہ اقبال یورپ سے واپس آنے کے بعد اپنی ابتدائے کار کے کلام سے بہت بیزار ہو گئے۔ان کا معیار سخن بڑی بلندی پر پہنچ گیا تھا ۔انھوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ اس زمانے کے اپنے اشعار مجھے دیکھ کر اب شرم آتی ہے میں اس تمام کلام کو اب تلف کر دینا چاہتا ہوں ۔علاوہ بریں بانگ درا میں جو غزلیں درج کی گئی ں ، ان کے بھی بعض اشعار حذف کیے گئے۔مثلاً اس غزل میں :​
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی​
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی​
دو شعر تو ضرور کاٹے گئے ہیں ، ایک کا دوسرا مصرعہ تھا (پہا مصرعہ یاد نہیں ، بادہ نوشی اور حالت نشہ کا مضمون تھا ) :​
اور میں گروں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی​
اور یہ قطع :​
اقبال عشق نے مرے سب بل دئیے نکال​
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی​
ان حالات میں کوئی تعجب نہیں ، وہ غزل ' جانانہ ہے ،پروانہ ہے ،اب اقبال کے شائع شدہ مجموعہ کلام میں نہیں ، مگر جب میں نے یہ غزل دیکھی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے اس وقت تک اہل پنجاب کی اردو شاعری کے جو نمونے دیکھے تھے ، ان کو دیکھ کر میں اہل پنجاب کی اردو گوئی کا معتقد نہ تھا، مگر اقبال کی اس غزل کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے بدل لی اور مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ذوق سخن کا اجارہ کسی خطہ زمین کو نہیں دیا گیا۔ جب بندشوں کی ایسی چستی ، کلام کی ایسی روانی اور مضامین کی یہ شوخی ایک طالب علم کے کلام میں ہے ،تو خدا جانے اسی پنجاب میں کتنے چھپے رستم پڑے ہوں گے جن کا حال ہم کو معلوم نہیں ۔خیر اوروں کو چھوڑئیے ، اقبال کا تو میں قائل ہو ہی گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "​
صفحہ ۳۔۴​
 

باباجی

محفلین
غلام بھیک نیرنگ کی کتاب "اقبال کے بعض حالات" سے اقتباس
"۔۔۔ ایک روز شام کے قریب میں اور چودھری جلال دین مرحوم بورڈنگ ہاؤس سے شہر کو گئےبھاٹی دروازہ کے قریب پہنچے تو سامنے سے ایک سادہ وضع گورے چٹے ،کشیدہ قامت، جوان رعنا آتے ہوئے دکھائی دئیے۔چودھری صاحب نے کہا کہ شیخ محمد اقبال جن کا میں نے ذکر کیاتھا آرہے ہیں جب ہم ایک دوسرے کے قریب پہنچےتو سب ٹھہر گئے۔چودھری صاحب نے میرا تعارف کرایا اس کے بعد ہم اپنے اپنے راستے چلے گئے۔معلوم ہوا کہ اقبال اس وقت بھاٹی دروازہ کے اندر شیخ گلاب دین مرحوم کے مکان پر رہ رہے تھے ۔شیخ صاحب موصوف بھی سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ۔عدالت ہائے لاہور میں عرصہ دراز سے مختار کی حیثیت سے پریکٹس کرتے تھے اور لاہور میں جائداد حاصل کر لی تھی۔اس کے بعد اقبال سے تعلق کی وجہ سے شیخ گلاب دین سے ہم لوگوں کا بھی تعارف اور تعلق ہوا اور کئی مرتبہ ان کے بالا خانے میں بیٹھ کر ہم نے محرم کا جلوس دیکھا۔​
بھاٹی دروازے کے باہر جو اقبال سے سر راہ سرسری ملاقات ہوئی ، تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ ان کا کلام سننا یا دیکھنا چاہئیے ، دیکھین تو ہ شعر کیسے کہتے ہیں۔ میں نے چودھری جلال دین سے کہا کہ ان سے ان کے کچھ اشعار لائیے۔ ، میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔دو ایک روز کے بعد چودھری صاحب ایک پرچہ لائے اس پر اقبال کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک غزل تھی ، جس کے یہ دو شعر اس وقت تک یاد ہیں​
بر سر زینت جو شمع محفل جانانہ ہے​
شانہ اس کی زلف پیچاں کا پر پروانہ ہے​
پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے تجھے​
چال سے خالی کہاں یہ لغزش مستانہ ہے​
میں دیکھتا ہو کہ بانگ درا میں یہ غزل نہیں ہے ۔یہ بھی میرے عمل میں ہے کہ اقبال یورپ سے واپس آنے کے بعد اپنی ابتدائے کار کے کلام سے بہت بیزار ہو گئے۔ان کا معیار سخن بڑی بلندی پر پہنچ گیا تھا ۔انھوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ اس زمانے کے اپنے اشعار مجھے دیکھ کر اب شرم آتی ہے میں اس تمام کلام کو اب تلف کر دینا چاہتا ہوں ۔علاوہ بریں بانگ درا میں جو غزلیں درج کی گئی ں ، ان کے بھی بعض اشعار حذف کیے گئے۔مثلاً اس غزل میں :​
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی​
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی​
دو شعر تو ضرور کاٹے گئے ہیں ، ایک کا دوسرا مصرعہ تھا (پہا مصرعہ یاد نہیں ، بادہ نوشی اور حالت نشہ کا مضمون تھا ) :​
اور میں گروں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی​
اور یہ قطع :​
اقبال عشق نے مرے سب بل دئیے نکال​
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی​
ان حالات میں کوئی تعجب نہیں ، وہ غزل ' جانانہ ہے ،پروانہ ہے ،اب اقبال کے شائع شدہ مجموعہ کلام میں نہیں ، مگر جب میں نے یہ غزل دیکھی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے اس وقت تک اہل پنجاب کی اردو شاعری کے جو نمونے دیکھے تھے ، ان کو دیکھ کر میں اہل پنجاب کی اردو گوئی کا معتقد نہ تھا، مگر اقبال کی اس غزل کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے بدل لی اور مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ذوق سخن کا اجارہ کسی خطہ زمین کو نہیں دیا گیا۔ جب بندشوں کی ایسی چستی ، کلام کی ایسی روانی اور مضامین کی یہ شوخی ایک طالب علم کے کلام میں ہے ،تو خدا جانے اسی پنجاب میں کتنے چھپے رستم پڑے ہوں گے جن کا حال ہم کو معلوم نہیں ۔خیر اوروں کو چھوڑئیے ، اقبال کا تو میں قائل ہو ہی گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "​
صفحہ ۳۔۴​
بہت ہی خوب شیئرنگ سید صاحب
بہت بہت شکریہ
 
Top