فرخ منظور
لائبریرین
غلام قادر روہیلہ کو برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کا مقدر بھی ویسا ٹھہرا کہ وہ تاریخ کے انتقام کا نشانہ بن گیا۔
غلام قادر روہیلہ ضابطہ خان کا بیٹا اور نجیب الدولہ کا پوتا تھا، جس کا تعلق افغان قبیلہ روہیلہ سے تھا اور وہ روہیل کھنڈ کا رہنے والا تھا۔ غلام قادر روہیلہ نے خفیہ خزانے کی تلاش میں سنہ 1787 میں مغلیہ سلطنت کے سولہویں شہنشاہ "شاہ عالم ثانی" کی نہ صرف آنکھیں نکلوا ڈالیں تھیں بلکہ اس نے قلعہ کے دیوانِ خاص میں مغل شہزادیوں کو ناچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ ان کا ناچ دیکھتے دیکھتے خنجر پاس رکھ کر سو گیا۔ پھر ناچ ختم ہوا تو آنکھیں کھول کر کہنے لگا،
”میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت وحمیت باقی رہ گئی ہوگی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اب مغل سلطنت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“
بنیادی طور غلام قادر روہیلہ نے مذہبی کارڈ کھیل کر محل کے اندر جانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس نے قرآن کی قسم کھا کر کہا کہ اسے محل کے اندر آنے دیا جائے تاکہ وہ شہنشاہ سے اظہارِ وفاداری کر سکے۔ اسے اندر آنے کی اجازت دی گئی تو دو ہزار سپاہی بھی محل میں داخل ہو گئے۔ پھر لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ اس نے باشاہ کو یرغمال بنا کر خفیہ خزانے کی بابت سوال پوچھتا رہا مگر بادشاہ انکار کرتا رہا کہ جو کچھ اس کے پاس تھا وہ اسے دے چکا ہے مگر غلام قادر روہیلہ قطعی نہ مانا۔ 10 اگست کے دن جب غلام قادر، شاہ عالم کے بیان سے مطمئن نہ ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کمینے کو زمین پر گرا دو اور اسے اندھا کردو۔ چنانچہ مغل شہنشاہ کو ٹھوکر مار کر تخت سے گرایا گیا اور اس کی آنکھوں میں سوئیاں ڈالی گئیں۔ شہنشاہ درد سے چیختا رہا۔ آخر جب سوئیاں اس کی آنکھوں میں اچھی طرح پیوست ہوگئیں تو غلام قادر نے شہنشاہ سے پوچھا: ”کہو اب تمھیں کچھ دکھائی دیتا ہے؟“ شہنشاہ نے جواب دیا: ”ہاں مجھے تمھارے اور اپنے درمیان میں قرآن دکھائی دیتا ہے۔“ دوسرے دن غلام قادر نے ایک درباری مصور کو بلا بھیجا اور اسے حکم کہ وہ ایک منظر کی تصویر کشی کرے۔ اس نے منظر یہ پیش کیا کہ اپنے ایک کمانڈر سے کہا کہ وہ خنجر کے ذریعے شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالے۔ چنانچہ خنجر کے ذریعے مغل کی دونوں آنکھیں نکال دی گئیں۔
شہنشاہ کو اندھا کر دئیے جانے کے بعد مذکورہ قبضے نے دہشت کی حکمرانی کو جنم دیا تھا۔ غلام قادر نے شاہ سے اندھا کرنے کے فوراً بعد کہا کہ یہ "غوث گڑھ میں آپ کے عمل کا بدلہ ہے"۔ انتقام اور بدلہ کا عمل اپنے پیچھے بھی ایک داستان رکھتا ہے۔
مغل خزانے کو حاصل کرنے کی جستجو میں، غلام قادر نے تیموری سلطنت کے شاہی خاندان کو بے پناہ اذیت دی۔ کہا جاتا ہے کہ اکیس شہزادے اور شہزادیاں قتل کر دی گئیں۔ شاہی خاندان کی خواتین کے ساتھ بے حرمتی کو اُس وقت کے تناظر میں انتہائی ظالمانہ سمجھا گیا تھا۔ دہلی کی لوٹ مار کے نتیجے میں 25 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
اس کا ساتھ دینے والے اسماعیل بیگ کو قبضے میں حصہ لینے کا کوئی انعام نہ ملا تو وہ ستمبر 1787 میں روہیلہ فوج کو چھوڑ گیا۔ جب مرہٹے دہلی کو غلام قادر کے قبضے سے آزاد کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے جس کی قیادت مہاراجہ سندھیا جی نے کی تھی۔ مرہٹوں، بیگم سمرو اور منحرف اسماعیل بیگ کی مشترکہ فوجوں نے حملہ کیا جسے غلام قادر کے روہیلہ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ اور وہ 10 اکتوبر 1787 کو دہلی قلعہ چھوڑ کر بچی ہوئی فوج کے ساتھ فرار ہوگیا۔ 16 اکتوبر 1788 کو اندھے شاہ عالم ثانی کو دوبارہ مغل بادشاہ کے طور پر بحال کر دیا گیا۔ ان کی باقاعدہ تاج پوشی 7 فروری 1789 کو ہوئی۔
اس کے بعد مرہٹوں نے غلام قادر کی تلاش شروع کر دی۔ غلام قادر میرٹھ کے قلعے میں پناہ گزین ہوا، جسے مرہٹوں نے گھیر لیا۔ جب وہاں کے حالات ناقابل برداشت ہوگئے تو وہ رات کے وقت 500 گھڑسواروں کے ساتھ محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہوگیا اور غوث گڑھ کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن مرہٹوں کی ایک ٹکڑی کے ساتھ گھڑسواروں کی مڈبھیڑ کے دوران، وہ اپنی جماعت سے الگ ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، جس کے بعد غلام قادر کو اکیلے پیدل فرار ہونا پڑا۔ وہ بامنولی (اتر پردیش) پہنچا، جہاں اس نے ایک برہمن کے گھر پناہ لی اور اسے ایک گھوڑا اور رہنما فراہم کرنے کا انعام دیا، جو اسے غوث گڑھ پہنچا سکے۔ لیکن برہمن نے اسے پہچان لیا اور مرہٹوں کی ایک جماعت کو اطلاع دی۔ جس نے 19 دسمبر 1788 کو اسے پکڑ لیا۔
غلام قادر کچھ عرصہ مرہٹوں کی قید میں رہا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ تاہم 28 فروری 1789 کو مہاراجہ سندھیا کو شاہ عالم ثانی کا خط موصول ہوا۔ جس میں غلام قادر کی آنکھیں نکالے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پھر مہاراجہ سندھیا نے غلام قادر روہیلہ کے کان کاٹنے کا حکم دیا۔ اگلے دن اس کی ناک، زبان اور اوپری ہونٹ کو ایک ڈبے میں ڈال کر شہنشاہ کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد غلام قادر کی مزید اذیت جاری رہی۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے۔ 3 مارچ 1789 کو متھرا میں اسے ایک درخت سے لٹکا کر بکرے کی طرح ذبح کر کے سَر قلم کر دیا گیا۔ اس کے کان اور آنکھوں کی پتلیاں شاہ عالم ثانی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیج دی گئیں کہ اس کی بینائی چھینے جانے اور تیموری خاندان کی خواتین کی بے حرمتی کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔
غلام قادر روہیلہ کو برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کا مقدر بھی ویسا ٹھہرا کہ وہ تاریخ کے انتقام کا نشانہ بن گیا۔
غلام قادر روہیلہ ضابطہ خان کا بیٹا اور نجیب الدولہ کا پوتا تھا، جس کا تعلق افغان قبیلہ روہیلہ سے تھا اور وہ روہیل کھنڈ کا رہنے والا تھا۔ غلام قادر روہیلہ نے خفیہ خزانے کی تلاش میں سنہ 1787 میں مغلیہ سلطنت کے سولہویں شہنشاہ "شاہ عالم ثانی" کی نہ صرف آنکھیں نکلوا ڈالیں تھیں بلکہ اس نے قلعہ کے دیوانِ خاص میں مغل شہزادیوں کو ناچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ ان کا ناچ دیکھتے دیکھتے خنجر پاس رکھ کر سو گیا۔ پھر ناچ ختم ہوا تو آنکھیں کھول کر کہنے لگا،
”میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت وحمیت باقی رہ گئی ہوگی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اب مغل سلطنت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“
بنیادی طور غلام قادر روہیلہ نے مذہبی کارڈ کھیل کر محل کے اندر جانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس نے قرآن کی قسم کھا کر کہا کہ اسے محل کے اندر آنے دیا جائے تاکہ وہ شہنشاہ سے اظہارِ وفاداری کر سکے۔ اسے اندر آنے کی اجازت دی گئی تو دو ہزار سپاہی بھی محل میں داخل ہو گئے۔ پھر لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ اس نے باشاہ کو یرغمال بنا کر خفیہ خزانے کی بابت سوال پوچھتا رہا مگر بادشاہ انکار کرتا رہا کہ جو کچھ اس کے پاس تھا وہ اسے دے چکا ہے مگر غلام قادر روہیلہ قطعی نہ مانا۔ 10 اگست کے دن جب غلام قادر، شاہ عالم کے بیان سے مطمئن نہ ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کمینے کو زمین پر گرا دو اور اسے اندھا کردو۔ چنانچہ مغل شہنشاہ کو ٹھوکر مار کر تخت سے گرایا گیا اور اس کی آنکھوں میں سوئیاں ڈالی گئیں۔ شہنشاہ درد سے چیختا رہا۔ آخر جب سوئیاں اس کی آنکھوں میں اچھی طرح پیوست ہوگئیں تو غلام قادر نے شہنشاہ سے پوچھا: ”کہو اب تمھیں کچھ دکھائی دیتا ہے؟“ شہنشاہ نے جواب دیا: ”ہاں مجھے تمھارے اور اپنے درمیان میں قرآن دکھائی دیتا ہے۔“ دوسرے دن غلام قادر نے ایک درباری مصور کو بلا بھیجا اور اسے حکم کہ وہ ایک منظر کی تصویر کشی کرے۔ اس نے منظر یہ پیش کیا کہ اپنے ایک کمانڈر سے کہا کہ وہ خنجر کے ذریعے شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالے۔ چنانچہ خنجر کے ذریعے مغل کی دونوں آنکھیں نکال دی گئیں۔
شہنشاہ کو اندھا کر دئیے جانے کے بعد مذکورہ قبضے نے دہشت کی حکمرانی کو جنم دیا تھا۔ غلام قادر نے شاہ سے اندھا کرنے کے فوراً بعد کہا کہ یہ "غوث گڑھ میں آپ کے عمل کا بدلہ ہے"۔ انتقام اور بدلہ کا عمل اپنے پیچھے بھی ایک داستان رکھتا ہے۔
مغل خزانے کو حاصل کرنے کی جستجو میں، غلام قادر نے تیموری سلطنت کے شاہی خاندان کو بے پناہ اذیت دی۔ کہا جاتا ہے کہ اکیس شہزادے اور شہزادیاں قتل کر دی گئیں۔ شاہی خاندان کی خواتین کے ساتھ بے حرمتی کو اُس وقت کے تناظر میں انتہائی ظالمانہ سمجھا گیا تھا۔ دہلی کی لوٹ مار کے نتیجے میں 25 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
اس کا ساتھ دینے والے اسماعیل بیگ کو قبضے میں حصہ لینے کا کوئی انعام نہ ملا تو وہ ستمبر 1787 میں روہیلہ فوج کو چھوڑ گیا۔ جب مرہٹے دہلی کو غلام قادر کے قبضے سے آزاد کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے جس کی قیادت مہاراجہ سندھیا جی نے کی تھی۔ مرہٹوں، بیگم سمرو اور منحرف اسماعیل بیگ کی مشترکہ فوجوں نے حملہ کیا جسے غلام قادر کے روہیلہ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ اور وہ 10 اکتوبر 1787 کو دہلی قلعہ چھوڑ کر بچی ہوئی فوج کے ساتھ فرار ہوگیا۔ 16 اکتوبر 1788 کو اندھے شاہ عالم ثانی کو دوبارہ مغل بادشاہ کے طور پر بحال کر دیا گیا۔ ان کی باقاعدہ تاج پوشی 7 فروری 1789 کو ہوئی۔
اس کے بعد مرہٹوں نے غلام قادر کی تلاش شروع کر دی۔ غلام قادر میرٹھ کے قلعے میں پناہ گزین ہوا، جسے مرہٹوں نے گھیر لیا۔ جب وہاں کے حالات ناقابل برداشت ہوگئے تو وہ رات کے وقت 500 گھڑسواروں کے ساتھ محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہوگیا اور غوث گڑھ کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن مرہٹوں کی ایک ٹکڑی کے ساتھ گھڑسواروں کی مڈبھیڑ کے دوران، وہ اپنی جماعت سے الگ ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، جس کے بعد غلام قادر کو اکیلے پیدل فرار ہونا پڑا۔ وہ بامنولی (اتر پردیش) پہنچا، جہاں اس نے ایک برہمن کے گھر پناہ لی اور اسے ایک گھوڑا اور رہنما فراہم کرنے کا انعام دیا، جو اسے غوث گڑھ پہنچا سکے۔ لیکن برہمن نے اسے پہچان لیا اور مرہٹوں کی ایک جماعت کو اطلاع دی۔ جس نے 19 دسمبر 1788 کو اسے پکڑ لیا۔
غلام قادر کچھ عرصہ مرہٹوں کی قید میں رہا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ تاہم 28 فروری 1789 کو مہاراجہ سندھیا کو شاہ عالم ثانی کا خط موصول ہوا۔ جس میں غلام قادر کی آنکھیں نکالے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پھر مہاراجہ سندھیا نے غلام قادر روہیلہ کے کان کاٹنے کا حکم دیا۔ اگلے دن اس کی ناک، زبان اور اوپری ہونٹ کو ایک ڈبے میں ڈال کر شہنشاہ کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد غلام قادر کی مزید اذیت جاری رہی۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے۔ 3 مارچ 1789 کو متھرا میں اسے ایک درخت سے لٹکا کر بکرے کی طرح ذبح کر کے سَر قلم کر دیا گیا۔ اس کے کان اور آنکھوں کی پتلیاں شاہ عالم ثانی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیج دی گئیں کہ اس کی بینائی چھینے جانے اور تیموری خاندان کی خواتین کی بے حرمتی کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔
غلام قادر رہیلہ
(علامہ اقبال)
رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے
بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی!
شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے
بنایا آہ! سامان طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے
لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے
رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے
یونہی کچھ دیر تک محو نظر آنکھیں رہیں اس کی
کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے
کمر سے ، اٹھ کے تیغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا
تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشم احمر سے
بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے
پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا
کہ غفلت دور ہے شان صف آرایان لشکر سے
یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
(علامہ اقبال)
غلام قادر روہیلہ ضابطہ خان کا بیٹا اور نجیب الدولہ کا پوتا تھا، جس کا تعلق افغان قبیلہ روہیلہ سے تھا اور وہ روہیل کھنڈ کا رہنے والا تھا۔ غلام قادر روہیلہ نے خفیہ خزانے کی تلاش میں سنہ 1787 میں مغلیہ سلطنت کے سولہویں شہنشاہ "شاہ عالم ثانی" کی نہ صرف آنکھیں نکلوا ڈالیں تھیں بلکہ اس نے قلعہ کے دیوانِ خاص میں مغل شہزادیوں کو ناچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ ان کا ناچ دیکھتے دیکھتے خنجر پاس رکھ کر سو گیا۔ پھر ناچ ختم ہوا تو آنکھیں کھول کر کہنے لگا،
”میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت وحمیت باقی رہ گئی ہوگی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اب مغل سلطنت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“
بنیادی طور غلام قادر روہیلہ نے مذہبی کارڈ کھیل کر محل کے اندر جانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس نے قرآن کی قسم کھا کر کہا کہ اسے محل کے اندر آنے دیا جائے تاکہ وہ شہنشاہ سے اظہارِ وفاداری کر سکے۔ اسے اندر آنے کی اجازت دی گئی تو دو ہزار سپاہی بھی محل میں داخل ہو گئے۔ پھر لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ اس نے باشاہ کو یرغمال بنا کر خفیہ خزانے کی بابت سوال پوچھتا رہا مگر بادشاہ انکار کرتا رہا کہ جو کچھ اس کے پاس تھا وہ اسے دے چکا ہے مگر غلام قادر روہیلہ قطعی نہ مانا۔ 10 اگست کے دن جب غلام قادر، شاہ عالم کے بیان سے مطمئن نہ ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کمینے کو زمین پر گرا دو اور اسے اندھا کردو۔ چنانچہ مغل شہنشاہ کو ٹھوکر مار کر تخت سے گرایا گیا اور اس کی آنکھوں میں سوئیاں ڈالی گئیں۔ شہنشاہ درد سے چیختا رہا۔ آخر جب سوئیاں اس کی آنکھوں میں اچھی طرح پیوست ہوگئیں تو غلام قادر نے شہنشاہ سے پوچھا: ”کہو اب تمھیں کچھ دکھائی دیتا ہے؟“ شہنشاہ نے جواب دیا: ”ہاں مجھے تمھارے اور اپنے درمیان میں قرآن دکھائی دیتا ہے۔“ دوسرے دن غلام قادر نے ایک درباری مصور کو بلا بھیجا اور اسے حکم کہ وہ ایک منظر کی تصویر کشی کرے۔ اس نے منظر یہ پیش کیا کہ اپنے ایک کمانڈر سے کہا کہ وہ خنجر کے ذریعے شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالے۔ چنانچہ خنجر کے ذریعے مغل کی دونوں آنکھیں نکال دی گئیں۔
شہنشاہ کو اندھا کر دئیے جانے کے بعد مذکورہ قبضے نے دہشت کی حکمرانی کو جنم دیا تھا۔ غلام قادر نے شاہ سے اندھا کرنے کے فوراً بعد کہا کہ یہ "غوث گڑھ میں آپ کے عمل کا بدلہ ہے"۔ انتقام اور بدلہ کا عمل اپنے پیچھے بھی ایک داستان رکھتا ہے۔
مغل خزانے کو حاصل کرنے کی جستجو میں، غلام قادر نے تیموری سلطنت کے شاہی خاندان کو بے پناہ اذیت دی۔ کہا جاتا ہے کہ اکیس شہزادے اور شہزادیاں قتل کر دی گئیں۔ شاہی خاندان کی خواتین کے ساتھ بے حرمتی کو اُس وقت کے تناظر میں انتہائی ظالمانہ سمجھا گیا تھا۔ دہلی کی لوٹ مار کے نتیجے میں 25 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
اس کا ساتھ دینے والے اسماعیل بیگ کو قبضے میں حصہ لینے کا کوئی انعام نہ ملا تو وہ ستمبر 1787 میں روہیلہ فوج کو چھوڑ گیا۔ جب مرہٹے دہلی کو غلام قادر کے قبضے سے آزاد کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے جس کی قیادت مہاراجہ سندھیا جی نے کی تھی۔ مرہٹوں، بیگم سمرو اور منحرف اسماعیل بیگ کی مشترکہ فوجوں نے حملہ کیا جسے غلام قادر کے روہیلہ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ اور وہ 10 اکتوبر 1787 کو دہلی قلعہ چھوڑ کر بچی ہوئی فوج کے ساتھ فرار ہوگیا۔ 16 اکتوبر 1788 کو اندھے شاہ عالم ثانی کو دوبارہ مغل بادشاہ کے طور پر بحال کر دیا گیا۔ ان کی باقاعدہ تاج پوشی 7 فروری 1789 کو ہوئی۔
اس کے بعد مرہٹوں نے غلام قادر کی تلاش شروع کر دی۔ غلام قادر میرٹھ کے قلعے میں پناہ گزین ہوا، جسے مرہٹوں نے گھیر لیا۔ جب وہاں کے حالات ناقابل برداشت ہوگئے تو وہ رات کے وقت 500 گھڑسواروں کے ساتھ محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہوگیا اور غوث گڑھ کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن مرہٹوں کی ایک ٹکڑی کے ساتھ گھڑسواروں کی مڈبھیڑ کے دوران، وہ اپنی جماعت سے الگ ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، جس کے بعد غلام قادر کو اکیلے پیدل فرار ہونا پڑا۔ وہ بامنولی (اتر پردیش) پہنچا، جہاں اس نے ایک برہمن کے گھر پناہ لی اور اسے ایک گھوڑا اور رہنما فراہم کرنے کا انعام دیا، جو اسے غوث گڑھ پہنچا سکے۔ لیکن برہمن نے اسے پہچان لیا اور مرہٹوں کی ایک جماعت کو اطلاع دی۔ جس نے 19 دسمبر 1788 کو اسے پکڑ لیا۔
غلام قادر کچھ عرصہ مرہٹوں کی قید میں رہا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ تاہم 28 فروری 1789 کو مہاراجہ سندھیا کو شاہ عالم ثانی کا خط موصول ہوا۔ جس میں غلام قادر کی آنکھیں نکالے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پھر مہاراجہ سندھیا نے غلام قادر روہیلہ کے کان کاٹنے کا حکم دیا۔ اگلے دن اس کی ناک، زبان اور اوپری ہونٹ کو ایک ڈبے میں ڈال کر شہنشاہ کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد غلام قادر کی مزید اذیت جاری رہی۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے۔ 3 مارچ 1789 کو متھرا میں اسے ایک درخت سے لٹکا کر بکرے کی طرح ذبح کر کے سَر قلم کر دیا گیا۔ اس کے کان اور آنکھوں کی پتلیاں شاہ عالم ثانی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیج دی گئیں کہ اس کی بینائی چھینے جانے اور تیموری خاندان کی خواتین کی بے حرمتی کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔
غلام قادر روہیلہ کو برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کا مقدر بھی ویسا ٹھہرا کہ وہ تاریخ کے انتقام کا نشانہ بن گیا۔
غلام قادر روہیلہ ضابطہ خان کا بیٹا اور نجیب الدولہ کا پوتا تھا، جس کا تعلق افغان قبیلہ روہیلہ سے تھا اور وہ روہیل کھنڈ کا رہنے والا تھا۔ غلام قادر روہیلہ نے خفیہ خزانے کی تلاش میں سنہ 1787 میں مغلیہ سلطنت کے سولہویں شہنشاہ "شاہ عالم ثانی" کی نہ صرف آنکھیں نکلوا ڈالیں تھیں بلکہ اس نے قلعہ کے دیوانِ خاص میں مغل شہزادیوں کو ناچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ ان کا ناچ دیکھتے دیکھتے خنجر پاس رکھ کر سو گیا۔ پھر ناچ ختم ہوا تو آنکھیں کھول کر کہنے لگا،
”میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت وحمیت باقی رہ گئی ہوگی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اب مغل سلطنت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“
بنیادی طور غلام قادر روہیلہ نے مذہبی کارڈ کھیل کر محل کے اندر جانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس نے قرآن کی قسم کھا کر کہا کہ اسے محل کے اندر آنے دیا جائے تاکہ وہ شہنشاہ سے اظہارِ وفاداری کر سکے۔ اسے اندر آنے کی اجازت دی گئی تو دو ہزار سپاہی بھی محل میں داخل ہو گئے۔ پھر لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ اس نے باشاہ کو یرغمال بنا کر خفیہ خزانے کی بابت سوال پوچھتا رہا مگر بادشاہ انکار کرتا رہا کہ جو کچھ اس کے پاس تھا وہ اسے دے چکا ہے مگر غلام قادر روہیلہ قطعی نہ مانا۔ 10 اگست کے دن جب غلام قادر، شاہ عالم کے بیان سے مطمئن نہ ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کمینے کو زمین پر گرا دو اور اسے اندھا کردو۔ چنانچہ مغل شہنشاہ کو ٹھوکر مار کر تخت سے گرایا گیا اور اس کی آنکھوں میں سوئیاں ڈالی گئیں۔ شہنشاہ درد سے چیختا رہا۔ آخر جب سوئیاں اس کی آنکھوں میں اچھی طرح پیوست ہوگئیں تو غلام قادر نے شہنشاہ سے پوچھا: ”کہو اب تمھیں کچھ دکھائی دیتا ہے؟“ شہنشاہ نے جواب دیا: ”ہاں مجھے تمھارے اور اپنے درمیان میں قرآن دکھائی دیتا ہے۔“ دوسرے دن غلام قادر نے ایک درباری مصور کو بلا بھیجا اور اسے حکم کہ وہ ایک منظر کی تصویر کشی کرے۔ اس نے منظر یہ پیش کیا کہ اپنے ایک کمانڈر سے کہا کہ وہ خنجر کے ذریعے شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالے۔ چنانچہ خنجر کے ذریعے مغل کی دونوں آنکھیں نکال دی گئیں۔
شہنشاہ کو اندھا کر دئیے جانے کے بعد مذکورہ قبضے نے دہشت کی حکمرانی کو جنم دیا تھا۔ غلام قادر نے شاہ سے اندھا کرنے کے فوراً بعد کہا کہ یہ "غوث گڑھ میں آپ کے عمل کا بدلہ ہے"۔ انتقام اور بدلہ کا عمل اپنے پیچھے بھی ایک داستان رکھتا ہے۔
مغل خزانے کو حاصل کرنے کی جستجو میں، غلام قادر نے تیموری سلطنت کے شاہی خاندان کو بے پناہ اذیت دی۔ کہا جاتا ہے کہ اکیس شہزادے اور شہزادیاں قتل کر دی گئیں۔ شاہی خاندان کی خواتین کے ساتھ بے حرمتی کو اُس وقت کے تناظر میں انتہائی ظالمانہ سمجھا گیا تھا۔ دہلی کی لوٹ مار کے نتیجے میں 25 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
اس کا ساتھ دینے والے اسماعیل بیگ کو قبضے میں حصہ لینے کا کوئی انعام نہ ملا تو وہ ستمبر 1787 میں روہیلہ فوج کو چھوڑ گیا۔ جب مرہٹے دہلی کو غلام قادر کے قبضے سے آزاد کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے جس کی قیادت مہاراجہ سندھیا جی نے کی تھی۔ مرہٹوں، بیگم سمرو اور منحرف اسماعیل بیگ کی مشترکہ فوجوں نے حملہ کیا جسے غلام قادر کے روہیلہ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ اور وہ 10 اکتوبر 1787 کو دہلی قلعہ چھوڑ کر بچی ہوئی فوج کے ساتھ فرار ہوگیا۔ 16 اکتوبر 1788 کو اندھے شاہ عالم ثانی کو دوبارہ مغل بادشاہ کے طور پر بحال کر دیا گیا۔ ان کی باقاعدہ تاج پوشی 7 فروری 1789 کو ہوئی۔
اس کے بعد مرہٹوں نے غلام قادر کی تلاش شروع کر دی۔ غلام قادر میرٹھ کے قلعے میں پناہ گزین ہوا، جسے مرہٹوں نے گھیر لیا۔ جب وہاں کے حالات ناقابل برداشت ہوگئے تو وہ رات کے وقت 500 گھڑسواروں کے ساتھ محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہوگیا اور غوث گڑھ کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن مرہٹوں کی ایک ٹکڑی کے ساتھ گھڑسواروں کی مڈبھیڑ کے دوران، وہ اپنی جماعت سے الگ ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، جس کے بعد غلام قادر کو اکیلے پیدل فرار ہونا پڑا۔ وہ بامنولی (اتر پردیش) پہنچا، جہاں اس نے ایک برہمن کے گھر پناہ لی اور اسے ایک گھوڑا اور رہنما فراہم کرنے کا انعام دیا، جو اسے غوث گڑھ پہنچا سکے۔ لیکن برہمن نے اسے پہچان لیا اور مرہٹوں کی ایک جماعت کو اطلاع دی۔ جس نے 19 دسمبر 1788 کو اسے پکڑ لیا۔
غلام قادر کچھ عرصہ مرہٹوں کی قید میں رہا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ تاہم 28 فروری 1789 کو مہاراجہ سندھیا کو شاہ عالم ثانی کا خط موصول ہوا۔ جس میں غلام قادر کی آنکھیں نکالے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پھر مہاراجہ سندھیا نے غلام قادر روہیلہ کے کان کاٹنے کا حکم دیا۔ اگلے دن اس کی ناک، زبان اور اوپری ہونٹ کو ایک ڈبے میں ڈال کر شہنشاہ کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد غلام قادر کی مزید اذیت جاری رہی۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے۔ 3 مارچ 1789 کو متھرا میں اسے ایک درخت سے لٹکا کر بکرے کی طرح ذبح کر کے سَر قلم کر دیا گیا۔ اس کے کان اور آنکھوں کی پتلیاں شاہ عالم ثانی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیج دی گئیں کہ اس کی بینائی چھینے جانے اور تیموری خاندان کی خواتین کی بے حرمتی کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔
غلام قادر رہیلہ
(علامہ اقبال)
رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے
بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی!
شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے
بنایا آہ! سامان طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے
لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے
رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے
یونہی کچھ دیر تک محو نظر آنکھیں رہیں اس کی
کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے
کمر سے ، اٹھ کے تیغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا
تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشم احمر سے
بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے
پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا
کہ غفلت دور ہے شان صف آرایان لشکر سے
یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
(علامہ اقبال)
آخری تدوین: