محمد تابش صدیقی
منتظم
مجھ کو فنِّ شعر میں پوری طرح’اَدرک‘ نہیں
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
سماجی ذرائع ابلاغ نے ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں زمامِ ابلاغ تھما دی ہے۔ آج کل بے کس سے بے کس بندہ بھی کس کے ابلاغ کررہا ہے۔ سب ہی اپنے اپنے کس بل دکھا رہے ہیں۔ اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ علم و دانش کا ابلاغ بھی ہورہا ہے اور جہالت و جاہلیت کا بھی۔ کسی کسوٹی پر پرکھے بغیر (جس کا اصل تلفظ کبھی ’’کَس وَٹی‘‘ ہوا کرتا تھا) ہر چمکتی چیز کو سونابتاکر پیش کیا جارہا ہے۔ آج کل یہ مقولہ بھی عام ہے کہ ’ہر شخص کو اظہار کا حق ہے‘۔ ایک بار یہی قول کسی نے مولانا مودودیؒ کے سامنے دُہرا دیا تو مولانا نے برجستہ فرمایا:
’’ہر شخص کو صرف حق کے اظہار کا حق ہے‘‘۔
مگر سماجی ذرائع ابلاغ پر تو حق و ناحق شانہ بشانہ رواں دواں ہیں، خواہ کسی کے علم میں اضافہ ہو یا بیٹھے بٹھائے جہل میں اضافہ ہوجائے۔ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام۔ پہلے جو باتیں صرف ’چنڈو خانے‘ تک محدود رہا کرتی تھیں، اب وہی باتیں چار دانگ عالم میں پھیل جاتی ہیں۔ پھیلتی بھی ہیں تو کسی وبا کی طرح۔ پھیلانے والے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ میری ’وڈیو وائرل‘ ہو گئی۔ مراد یہ کہ اُن کا ’بصریہ وبائی‘ ہوگیا۔ جون ایلیا نے بھی خوب کہا تھا:
’’بہت سے لوگ جنھیں پڑھنا چاہیے، لکھ رہے ہیں‘‘۔
پچھلے ہفتے فیس بک پر سجی ہوئی ایک محفل میں ایک دوست نے طویل قصہ گوئی کے بعد یہ انکشاف فرمایا کہ اِدراک کا صحیح تلفظ اَدراک ہے، الف پر زبر کے ساتھ۔ دلیل کے طور پر انھوں نے سورۃ القارعہ کی یہ آیت پیش کردی: ’’ وَ مَا اَدراکَ مَاالقارعہ‘‘۔ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا:
’’جو لفظ قرآنِ مجید میں ہے اُس کی سند کے لیے کسی لغت کی ضرورت نہیں‘‘۔
بے شک قرآنی تلفظ کے بعد کسی سند کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مگر بھائی! قرآنی الفاظ کے اِدراک کی بھی ضرورت ہے یا نہیں؟ قرآن میں یہ لفظ کئی مقامات پر آیا ہے۔ سورۃ القدر میں بھی موجود ہے۔ مگرعربیِ مبین کی مثال لکھ بیٹھنے والے لکھاری نے لکھنے سے قبل بنیادی عربی قواعد پڑھ لینے کی ضرورت شاید محسوس ہی نہیں کی۔ اچھا کیا۔ پڑھ لیتے تو پھر لکھتے کیسے؟ پڑھتے تو معلوم ہوتا کہ ’وَ مَا اَدرَاکَ‘ میں جو ’ک‘ ہے، وہ اس لفظ کا جزو نہیں ہے۔ ضمیر کے طور پرشامل کیا گیا ہے۔ کسی عربی لفظ میں بطورِ ضمیر ’ک‘ کی شمولیت ’ تُو، تیرا، تیری، تیرے یا تجھے‘ کی جگہ ہوتی ہے۔ یہاں اصل لفظ ’اَدرا‘ (یا اَدریٰ) ہے۔جو ’دَرا، یدری‘ سے مشتق ہے۔ ’’وہ جانتا ہے یا اُس نے جانا‘‘۔ مَا اَدراکَ کا مطلب ہوا تُو نے کیا جانا؟ یا تُو کیا سمجھا؟ قرآنِ مجید کا یہ خاص خطباتی اسلوب ہے۔ جب کسی چیز کی عظمت یا ہیبت کی طرف متوجہ کرنا ہو تو خطیبانہ انداز میں سوال کیا جاتا ہے: ’’تم نے کیا جانا کہ وہ بڑا زبردست حادثہ کیا ہے؟‘‘
آگے بڑھنے سے قبل’’درا، یدری‘‘سے متعلق ایک دلچسپ بات کا بھی ذکر ہوجائے۔ مولانا ابوالجلال ندویؒ نے’ دراوڑی‘ یا ’دراویدی‘ کی توضیح کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اصل لفظ ’’دراوِدی‘‘ ہے۔ ’وِد‘ کے معنی یہاں ’وَید‘ کے ہیں اور ’وید‘ کے معنی ’علم‘ کے۔ یہ لفظ ’اُستاد‘ جو آپ بولتے ہیں یہ دراصل ’’اَوِستا وِد‘‘ تھا۔ یعنی اَوِستا کا جاننے والا۔ ’اَوِستا‘ زرتشتیوں کی مقدس کتاب تھی (اس کتاب کی کہانی پھر سہی)۔ چوں کہ اَوِستا کا جاننے والا ہی معلم ہوا کرتا تھا، چناں چہ ’اَوِستاوِد‘ ہر معلم کے لیے استعمال ہونے لگا۔ پھر یہ لفظ گھٹتے گھٹتے اُستاد بن گیا اور عالمِ عرب میں پہنچ کر ’اُستاذ‘ ہوا، جس کی جمع ’اساتذہ‘ اردو میں بھی استعمال ہوتی ہے (ہاتھ لا اُستاد! کیوں کیسی کہی؟) ’ اَوِستا وِد‘ ہی ’دَراوِد‘ بھی کہے جاتے تھے۔ یعنی درا، یدری سے جاننے والے کے معنوں میں۔ گویا ’دراوِد‘ بھی ’وید کے جاننے والے‘ ہی تھے ، جن کو (غالباً ساری وید بھول جانے پر) ’’دراوڑ‘‘ کہا جانے لگا۔ میرؔ صاحب مرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو کسی ’اَوِستا وِد‘ سے کم نہیں گردانتے تھے:
اردو میں ایک لفظ ’دَرَکنا‘ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چینی کے پیالے میں چیر پڑ جائے تو کہتے ہیں ’پیالہ درک گیا‘۔ یا شیشے میں بال آجائے تو بال بچوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ’شیشہ کس نے درکایا؟‘ (بشرطے کہ بال بچوں کی سمجھ میں یہ سوال آجائے)
جو لوگ علمی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں انھیں ایک لفظ ’استدراک‘ سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔ کتاب کے جس حصے میں پورے مضمون یا پوری کتاب کا ماحصل بیان کیا جاتا ہے، یا موضوع زیر بحث سے متعلق کسی غلطی و غلط فہمی کی اصلاح اور ازالے کو ملخص کیا جاتا ہے، اُسے ’استدراک‘ کہتے ہیں۔ عام طور پر اس حصے کا عنوان ہی ’استدراک‘ ہوتا ہے۔ جو لوگ علمی کتب کے مطالعے سے بھاگتے ہیں، اُن کے بھاگنے کا سبب بھی اسی قسم کے اَدَق الفاظ ہوتے ہیں۔ یوسفیؔ صاحب نے بھی مطالعے سے متعلق اپنا ایک تجربہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’سگریٹ نوشی کے خلاف اتنا مطالعہ کیا کہ مطالعے سے نفرت ہوگئی‘‘۔
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
سماجی ذرائع ابلاغ نے ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں زمامِ ابلاغ تھما دی ہے۔ آج کل بے کس سے بے کس بندہ بھی کس کے ابلاغ کررہا ہے۔ سب ہی اپنے اپنے کس بل دکھا رہے ہیں۔ اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ علم و دانش کا ابلاغ بھی ہورہا ہے اور جہالت و جاہلیت کا بھی۔ کسی کسوٹی پر پرکھے بغیر (جس کا اصل تلفظ کبھی ’’کَس وَٹی‘‘ ہوا کرتا تھا) ہر چمکتی چیز کو سونابتاکر پیش کیا جارہا ہے۔ آج کل یہ مقولہ بھی عام ہے کہ ’ہر شخص کو اظہار کا حق ہے‘۔ ایک بار یہی قول کسی نے مولانا مودودیؒ کے سامنے دُہرا دیا تو مولانا نے برجستہ فرمایا:
’’ہر شخص کو صرف حق کے اظہار کا حق ہے‘‘۔
مگر سماجی ذرائع ابلاغ پر تو حق و ناحق شانہ بشانہ رواں دواں ہیں، خواہ کسی کے علم میں اضافہ ہو یا بیٹھے بٹھائے جہل میں اضافہ ہوجائے۔ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام۔ پہلے جو باتیں صرف ’چنڈو خانے‘ تک محدود رہا کرتی تھیں، اب وہی باتیں چار دانگ عالم میں پھیل جاتی ہیں۔ پھیلتی بھی ہیں تو کسی وبا کی طرح۔ پھیلانے والے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ میری ’وڈیو وائرل‘ ہو گئی۔ مراد یہ کہ اُن کا ’بصریہ وبائی‘ ہوگیا۔ جون ایلیا نے بھی خوب کہا تھا:
’’بہت سے لوگ جنھیں پڑھنا چاہیے، لکھ رہے ہیں‘‘۔
پچھلے ہفتے فیس بک پر سجی ہوئی ایک محفل میں ایک دوست نے طویل قصہ گوئی کے بعد یہ انکشاف فرمایا کہ اِدراک کا صحیح تلفظ اَدراک ہے، الف پر زبر کے ساتھ۔ دلیل کے طور پر انھوں نے سورۃ القارعہ کی یہ آیت پیش کردی: ’’ وَ مَا اَدراکَ مَاالقارعہ‘‘۔ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا:
’’جو لفظ قرآنِ مجید میں ہے اُس کی سند کے لیے کسی لغت کی ضرورت نہیں‘‘۔
بے شک قرآنی تلفظ کے بعد کسی سند کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مگر بھائی! قرآنی الفاظ کے اِدراک کی بھی ضرورت ہے یا نہیں؟ قرآن میں یہ لفظ کئی مقامات پر آیا ہے۔ سورۃ القدر میں بھی موجود ہے۔ مگرعربیِ مبین کی مثال لکھ بیٹھنے والے لکھاری نے لکھنے سے قبل بنیادی عربی قواعد پڑھ لینے کی ضرورت شاید محسوس ہی نہیں کی۔ اچھا کیا۔ پڑھ لیتے تو پھر لکھتے کیسے؟ پڑھتے تو معلوم ہوتا کہ ’وَ مَا اَدرَاکَ‘ میں جو ’ک‘ ہے، وہ اس لفظ کا جزو نہیں ہے۔ ضمیر کے طور پرشامل کیا گیا ہے۔ کسی عربی لفظ میں بطورِ ضمیر ’ک‘ کی شمولیت ’ تُو، تیرا، تیری، تیرے یا تجھے‘ کی جگہ ہوتی ہے۔ یہاں اصل لفظ ’اَدرا‘ (یا اَدریٰ) ہے۔جو ’دَرا، یدری‘ سے مشتق ہے۔ ’’وہ جانتا ہے یا اُس نے جانا‘‘۔ مَا اَدراکَ کا مطلب ہوا تُو نے کیا جانا؟ یا تُو کیا سمجھا؟ قرآنِ مجید کا یہ خاص خطباتی اسلوب ہے۔ جب کسی چیز کی عظمت یا ہیبت کی طرف متوجہ کرنا ہو تو خطیبانہ انداز میں سوال کیا جاتا ہے: ’’تم نے کیا جانا کہ وہ بڑا زبردست حادثہ کیا ہے؟‘‘
آگے بڑھنے سے قبل’’درا، یدری‘‘سے متعلق ایک دلچسپ بات کا بھی ذکر ہوجائے۔ مولانا ابوالجلال ندویؒ نے’ دراوڑی‘ یا ’دراویدی‘ کی توضیح کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اصل لفظ ’’دراوِدی‘‘ ہے۔ ’وِد‘ کے معنی یہاں ’وَید‘ کے ہیں اور ’وید‘ کے معنی ’علم‘ کے۔ یہ لفظ ’اُستاد‘ جو آپ بولتے ہیں یہ دراصل ’’اَوِستا وِد‘‘ تھا۔ یعنی اَوِستا کا جاننے والا۔ ’اَوِستا‘ زرتشتیوں کی مقدس کتاب تھی (اس کتاب کی کہانی پھر سہی)۔ چوں کہ اَوِستا کا جاننے والا ہی معلم ہوا کرتا تھا، چناں چہ ’اَوِستاوِد‘ ہر معلم کے لیے استعمال ہونے لگا۔ پھر یہ لفظ گھٹتے گھٹتے اُستاد بن گیا اور عالمِ عرب میں پہنچ کر ’اُستاذ‘ ہوا، جس کی جمع ’اساتذہ‘ اردو میں بھی استعمال ہوتی ہے (ہاتھ لا اُستاد! کیوں کیسی کہی؟) ’ اَوِستا وِد‘ ہی ’دَراوِد‘ بھی کہے جاتے تھے۔ یعنی درا، یدری سے جاننے والے کے معنوں میں۔ گویا ’دراوِد‘ بھی ’وید کے جاننے والے‘ ہی تھے ، جن کو (غالباً ساری وید بھول جانے پر) ’’دراوڑ‘‘ کہا جانے لگا۔ میرؔ صاحب مرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو کسی ’اَوِستا وِد‘ سے کم نہیں گردانتے تھے:
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
اِدراک (الف پر زیر کے ساتھ) سورۃ القارعہ والے ’’اَدرَاکَ‘‘ سے جدا لفظ ہے۔ یہ ’دَرَکَ، یَدرِکُ سے ہے۔ اس کا مطلب ہے کچھ حاصل کرنا، پانا، عقل، فہم اور رسائی۔ اشیا یا صورتِ حال کا اچھی طرح احاطہ کرلینا، سمجھ لینا اور ذہن نشین کرلینا۔ اس کی جمع اِدراکات یا مُدرِکات ہے۔ خواجہ میر دردؔ کی قوتِ مُدرکہ اس بات پر حیران تھی کہرکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
یا رب یہ کیا طلسم ہے اِدراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے
عقل اگر ہو تو اس کو قوتِ مُدرِکہ بھی کہتے ہیں، یعنی سمجھنے کی صلاحیت۔ دَرَکَ، یَدرِکُ سے بنا ہوا ایک لفظ تدارُک بھی ہمارے ہاں عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں آخرکا اوّل سے آملنا۔ اصطلاحاً کسی غلطی کی اصلاح کرلینے یا کوئی غلطی کربیٹھنے کے بعد اسے درست کرلینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ میرؔ کا شعر ہے:دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے
حد سے زیادہ جَور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر کہ تدارُک پزیر ہو
ہمارے ایک دوست مصرع اولیٰ میں ’’جورُو‘‘ پڑھ کر اس شعر کا لطف دوبالا کردیتے ہیں۔ اردومیں لفظ دَرَک بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے واقفیت، سمجھ، تمیز۔ دَرَک ہونا کسی چیز سے واقف ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے صوبہ پنجاب کے لوگ تو اس قسم کے فقرے کستے ہوئے بھی سنائی دیتے ہیں کہ ’تم اکیلے دعوت کھا آئے اور ہمیں دَرَک بھی نہیں دی؟‘ ناواقفیت کا اظہار کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس فن میں مجھے دَرَک حاصل نہیں۔ حضرتِ دلاور فگارؔ نے اپنے ایک فرضی شاگرد کی زبان سے بیان کیا ہے:ایسا سلوک کر کہ تدارُک پزیر ہو
میں ابھی تک ’مُنتہی‘ ہوں، اس میں کوئی شک نہیں
مجھ کو فنِّ شعر میں پوری طرح ’ادرک‘ نہیں
’ادرک نہیں‘ پر یاد آیا کہ ایک دعا ہے ’’اَدرکنی‘‘۔ اس کا مطلب ہے مجھے عقل، سمجھ یا فہم عطا کردے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام اُس ذاتِ باری کے سوا کون کرسکتا ہے جس نے عقل، فہم یا سمجھ تخلیق و تقسیم کی ہے۔ مگر بعضے لوگ مخلوق سے دعا کر بیٹھتے ہیں کہ ’یا فلاں اَدرکنی‘، جانتے ہوئے کہ فلاں صاحب کی اپنی عقل و فہم بھی اللہ تعالیٰ ہی کی تخلیق ہے۔ ہمارے ایک برادرِ بزرگ کہا کرتے تھے کہ ایسے لوگ غالباً نہاری کھاتے ہوئے فلاں بزرگ کو اپنی بے چارگی کی اطلاع دے رہے ہوتے ہیں کہ ’یا فلاں اَدرک نئیں‘۔ ادرک ایک خوشبودار جڑ کا نام ہے۔ میرؔ نے اپنی مشہور ہجویہ مثنوی تسنگ نامہ میں ادرک کا قافیہ بھدرک سے جوڑا ہے۔ بھدرک کا مطلب نیکی، خوبی، بڑائی اور سلیقہ وغیرہ ہے:مجھ کو فنِّ شعر میں پوری طرح ’ادرک‘ نہیں
کیا کہوں مرچ تھی نہ ادرک تھی
اُس مُچھندر میں کچھ بھی بھدرک تھی؟
مُچھندر صرف موٹی موٹی مونچھ رکھنے والے کو نہیں کہتے، مسخرے اور بیہودہ آدمی کو بھی کہتے ہیں۔اُس مُچھندر میں کچھ بھی بھدرک تھی؟
اردو میں ایک لفظ ’دَرَکنا‘ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چینی کے پیالے میں چیر پڑ جائے تو کہتے ہیں ’پیالہ درک گیا‘۔ یا شیشے میں بال آجائے تو بال بچوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ’شیشہ کس نے درکایا؟‘ (بشرطے کہ بال بچوں کی سمجھ میں یہ سوال آجائے)
جو لوگ علمی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں انھیں ایک لفظ ’استدراک‘ سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔ کتاب کے جس حصے میں پورے مضمون یا پوری کتاب کا ماحصل بیان کیا جاتا ہے، یا موضوع زیر بحث سے متعلق کسی غلطی و غلط فہمی کی اصلاح اور ازالے کو ملخص کیا جاتا ہے، اُسے ’استدراک‘ کہتے ہیں۔ عام طور پر اس حصے کا عنوان ہی ’استدراک‘ ہوتا ہے۔ جو لوگ علمی کتب کے مطالعے سے بھاگتے ہیں، اُن کے بھاگنے کا سبب بھی اسی قسم کے اَدَق الفاظ ہوتے ہیں۔ یوسفیؔ صاحب نے بھی مطالعے سے متعلق اپنا ایک تجربہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’سگریٹ نوشی کے خلاف اتنا مطالعہ کیا کہ مطالعے سے نفرت ہوگئی‘‘۔