فیضان الحسن
محفلین
قیاس آرائیاں
نجانے اچانک کچھ سوچتے سوچتے سامنے میز پر پڑے قلم کو اٹھا لیا ۔ ۔ ۔
میں جانتا ہوں کہ خاموش قلم اپنے اندر کتنے بے تاب و بے رحم سمندر رکھتا ہے کتنی اداسیاں اور تنہائیاں جنگلوں بیابانوں میں سے گزرتی نہروں کی طرح اور کتنا ہی شور و غل آبشاروں اور لہروں کی طرح ۔ اس سے تحریرے گئے مناظر ۔ خیالات ۔ جذبات ۔ احساسات ۔ الزامات ۔ القابات ۔ خرابات سب کے سب قاری کو ایک نئی ہی دنیا کی طرف سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور میں اس دنیا کو فکر اور سوچ کی دنیا ہی کہوں گا ۔ اب قاری کی سوچ کا مقام پرواز قاری کے اندر موجود علم تک منحصر ہے ۔
انسان روز اول سے ہی ہر لمحہ ہر پل ایک نیا کردار ادار کرتا آیا ہے اس کا ماحول سے معاشرے سے ہر اس چیز سے جو اس کے ارد گرد موجود ہے یہاں تک کے درو دیوار وغیرہ سے بھی ایک رشتہ قائم ہوتا ہے جس کو وہ مختلف القابات سے نواز دینے کے بعد مطمئن ہو جاتا ہے ۔ کیا وہ مطمئن ہے ؟
نہیں وہ مطمئن نہیں ، اگر انسان اپنے بنائے ہوئے ہر رشتے پر سوچ بھری نظر ڈالے تو اس کو احساس ہو گا کہ اس کی اس تخلیق کو اس کی ہر مقام پر ضرورت ہے ۔ انسان کا اس دنیا میں اپنے "ماں پاب" یعنی والدین کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو ایک پھول کا بہار سے اگر گلشن میں بہار آئی ہوئی ہے تو ہر گل ہر کلی پر گلشن کے ہر ہر انگ میں آئی ہے ہر کونپل روز خشبو سے نہاتی ہے اور بہار کے جانے پر گلشن کی ویرانی پھر سے درد ناک ہو جاتی ہے ۔ انسان کا اپنے "ماں پاپ" کے ساتھ رشتہ جیسے ایک پروانے کا دکھتی ہوئی رات میں جلتے ہوئی چراغ یا کسی آسمان کو لپکتے ہوئی شعلے سے ہے ۔ جیسا سورج کا دھرتی، کرنوں کے ساتھ ہے خود تو جل جاتی ہیں مگر زمین کو روشن کر دیتی ہیں ۔ اندھیرا ہر رات پر ناز کرتا ہے جب چاند کی چاندنی دھرتی کو اپنی بانہوں میں ایسے چھوپاتی ہے جیسے کسی عشق لاحاصل کے خیال کو خود سے لگا رکھا ہو ۔
ایسا ہی ایک رشتہ میرے اور تمہارے درمیان ہے جس کو نام دینا نجانے کس حد تک درست ہے ۔ ہمارا اور تمہارا رشتہ تو خزاں رسیدہ پتے جیسا ہے جو شاخ سے لٹک رہا ہے نجانے ابھی ہوا چلے اور وہ گر جائے پھر اس کو کسی اداس تنہا شخص کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا قدم اچانک اس پر پڑ جائے اور چہکتی ہوئی صدا کے ساتھ وہ پتہ تنہائی کو محفل کا روپ دینے کے لیے جان دے دے