غلط عادات چھوڑئیے پرسکون زندگی گزارئیے

ماہنامہ عبقری
غلط عادات چھوڑئیے پرسکون زندگی گزارئیے



ہر شخص ایک پرسکون متوازن زندگی چاہتا ہے اگر اس کے معمولات میں کوئی تبدیلی ہوجائے تو اسٹریس پیدا ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ اس لیے آدمی کو کبھی ایک فرد یا ایک ہی چیز کے اطراف توجہات کو مرکوز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ اگر ختم ہوجائیں تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں


صرف اسٹریس ہی نہیں بے شمار نفسیاتی بیماریوں اور اس کے علاوہ دیگر کئی سماجی و اخلاقی مسائل کا علاج یہ ہے کہ آپ ’’اگر‘‘ سے بچیں۔ پیغمبر اسلام حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ خاص نفسیاتی تدابیر ہمیں دی ہیں کہ ’’اگر‘‘ سے بچو‘‘ اگر ’’ایمان کو ہلاک کرڈالتا ہے۔ آدمی مستقل خوف اور رنج میں ’’اگر‘‘ ہی کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے۔ اپنے آپ سے اور دوسروں سے الجھتا ہے۔ یہی سوچ اس کی زندگی کا محور بن جاتی ہے کہ ’’اگر یوں نہ ہوتا تو بہتر ہوتا اور اگر یوں ہوتا تو بہتر ہوتا‘‘ وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کے حصے کی روٹی‘ مال‘ عمر‘ عزت و ترقی مقدر کردی ہے یہ ناممکن ہے کہ اس کے مقدور بھر سے ایک فیصد بھی کم ملے یا زیادہ ملے۔ بندہ خود کمی کے خوف اور زیادتی کی حرص میں مبتلا ہوکر اپنے لیے بے شمار مصیبتیں کھڑی کرلیتا ہے جن میں سے ایک اسٹریس ہے۔ اس لیے کہ جب وہ اس راہ میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو اس کی تشفی کا پیمانہ کبھی لبریز ہونے نہیں پاتا۔ ہر کمی دوسری کئی کمیوں کا احساس جگاتی ہے اور ہر ترقی دوسری کئی ترقیوں کی خواہش دل میں پیدا کرتی ہے۔ اس لیے وہ ہل من مزید کی راہ میں ساری عمر اسٹریس ہی کا شکار رہتا ہے اور ان کو حاصل کرنے کیلئے بے صبری اور جلد بازی کا شکار ہوجاتا ہے۔
فرائڈ کا اسٹریس فارمولہ
ہر شخص ایک پرسکون متوازن زندگی چاہتا ہے اگر اس کے معمولات میں کوئی تبدیلی ہوجائے تو اسٹریس پیدا ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ اس لیے آدمی کو کبھی ایک فرد یا ایک ہی چیز کے اطراف توجہات کو مرکوز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ اگر ختم ہوجائیں تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ آدمی کی توجہات عام طور پر تین باتوں پر مرکوز ہوتی ہیں۔ کام‘ محبت‘ تفریح۔ زندگی میں تینوں باتوں کا بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی سازگار نہ ہو تو باقی وہ خودبخود ختم ہوجاتے ہیں اور زندگی بے مزہ ہوکر اسٹریس کا شکار ہوجاتی ہے۔ آدمی اگر اپنی محبت ایک آدمی کی طرف مرکوز رکھے تو اس سے زیادہ توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں۔
غلط عادات واطوار
طبی طور پر ثابت ہے کہ الکوحل جسم میں اسٹریس پیداکرتی ہے‘ اعصاب ٹھنڈے اور سست پڑجاتے ہیں اور ذہن ماؤف ہوجاتا ہے اور ذہن اس الیکٹرک پینل کی طرح ہوجاتا ہے جس میں وولٹیج کی کمی یا زیادتی واقع ہوجائے تو سارے گھر کے بلب اور دوسرے الیکٹرانک اشیاء اب نارمل کام شروع کردیتی ہیں اسی لیے مغرب میں اسٹریس کے مریض سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ نفسیات کے ڈاکٹر کے سب سے زیادہ گاہک اسٹریس کے مریض ہوتے ہیں۔ اس کیفیت سے صحت پر انتہائی مضراثرات پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ سگریٹ یا چائے یا پان جو کہ الکوحل نہیں ہے یہ اگر عادت میں شامل ہوجائیں تو نہ ملنے کی صورت میں اکثر لوگ اسٹریس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت کم قوت ارادی رکھنے والے افراد ایسے ہوتے ہیں جو ان عادات کو ترک کرنے پر قادر ہوتے ہیں بہتر تو یہی ہے کہ اگر کوئی ان کا شوق رکھتا بھی ہو تو اس کو مستقل عادت نہ بنائے ورنہ یوں بھی ایک نہ ایک دن ڈاکٹر کی آخری وارننگ کے بعد انہیں ترک کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت نقصان اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔
نشہ آور چیزوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ان کی لت بڑی آسانی سے شروع ہوتی ہے۔ اسے چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے افراد پر اگر لعن‘ طعن وعظ و نصیحت کی جائے یا ان کو ترک تعلقات‘ طلاق یا خلع وغیرہ کی نصیحت کی جائے تو یہ مزید ضد کا شکار ہوسکتے ہیں۔ وقتی طور پر اگر اپنی عادت سے باز بھی آجائیں تو شوق دل میں ایک چور کی طرح چھپا بیٹھا رہتا ہے جو کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی موقع ملنے پر اپنا رنگ دکھا ہی جاتا ہے۔نشہ دراصل ایک اسٹریس کو قابو میں کرنے کا عارضی ذریعہ ہے لیکن اس کا عادی شخص یہ نہیں جانتا کہ یہ ایک اسٹریس کو دبانے کی کوشش میں کتنے اور اسٹریس کو دعوت دے رہا ہے۔ اس عادت کو چھڑانے کیلئے طب اور نفسیات میں بہتر طریقے موجود ہیں جس کیلئے ماہرین یا مراکز سے رجوع کرنا بہتر ہے تاکہ مستقل علاج ممکن ہو۔ ایک مسلمان اگر اس کاقرآن اورآخرت پر یقین پختہ ہوجائے تو اسے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ذہنی وباء سے دوسری بیماریاں
دمہ‘ذیابیطس یا کسی معذوری وغیرہ کی وجہ سے طبیعت میں اس کیفیت کا پیدا ہونا لازمی ہے لیکن یہ اگر بڑھ جائے تو اول الذکر بیماریوں کو بڑھا دیتا ہے۔ جسم میں ان بیماریوں سے مزاحمت کرنے والے خلیے میں کمی ہونے لگتی ہے۔ ان بیماریوں کا حملہ اسٹریس کی حالت میں زیادہ تیز ہوجاتا ہے۔ کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیںجنہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی لیکن اسٹریس کی حالت میں کئی بیماریوں کا گمان ہونے لگتا ہے اور محض وہم کی بنا پرانہیں ڈاکٹرز اور ٹیسٹوں کے خرچہ سے گزرنا پڑتا ہے۔
بیماری سے زیادہ ذہن کا علاج ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایسی مسنون دعائیں روایت ہیں جومختلف بیماریوں کے سلسلے میں مخصوص ہیں۔ اگر کامل یقین کے ساتھ مانگی جاتی رہیں تو شفاء عین ممکن ہے۔ اگر کوئی بیماری نہ ہو تو تب بھی ان کا ورد ذہن کو بیماری کے اسٹریس سے نجات دلانے کے لیے ایک بہترین نفسیاتی ذریعہ ہے جو بندہ بیماری کے غم میں مبتلا ہوجائے اور اپنے اوپر اسٹریس طاری کرلے اس کا رویہ خالق کی مرضی کے خلاف احتجاج والا ہے۔ بیماریوں پر بجائے صبر و شکر کے غم کا عادی ہوجانا زبردست اسٹریس کو دعوت دینا ہے۔ لوگ اس کے اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ سر میں درد بھی ہو تو ان کے نزدیک یہ مسئلہ کشمیر و بوسنیاء سے زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ نماز تو درکنار وہ بیوی بچوں دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی بے اعتنائی اور کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ صحیح مقصد حیات تعین نہ ہو تو افراد اسٹریس کا شکار ہوسکتے ہیں۔انفرادی زندگی کیلئے بہتر کام اور اس کیلئے بہتر صلاحیت و محنت کی ضرورت ہے اسی پر ایک کامیاب طرز زندگی کا انحصار ہے لیکن یاد رہے فرد معاشرے کی ایک اکائی ہے فرد کی ذاتی صلاحیت ترقی اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کا فائدہ اگر معاشرے کے اجتماعی مفاد پر صرف نہ ہو تو ایسی زندگی کو اجتماعی نقطہ نظر سے بے مقصد ہی کہا جائے گا۔
 
Top