غمزہء چشمِ فسوں ساز سے اعجاز کرے (غزل ) اختر عثمان

واجد عمران

محفلین
غمزہء چشمِ فسوں ساز سے اعجاز کرے
تو دلوں پر نئی دنیاؤں کے در باز کرے

تیرے قدموں میں جگہ پائے تو رم سیکھے غزال
تیرے پہلو میں صبا چلتے ہوئے ناز کرے

تیرے ابرو سے شگوفے کو ملے اذنِ کلام
تیری تحسین اُسے زمزمہ پرداز کرے

تو جو بولے تو بڑھے قیمتِ انشائے لطیف
اور اجمال میں کچھ اور سا ایجاز کرے

تیرے چہرے کی چمک صبحِ فروزاں سے فزوں
تیرا کاکُل فنِ شب کو نظر انداز کرے

تیری پلکوں میں سمٹ جائیں مضامینِ حیا
تیری خوشبوئے قبا پھول کو ہمراز کرے

تیری پازیب کی لَو لے کے اُڑے توسنِ وقت
طائرِ فکر ترے نور میں پرواز کرے

تیرے رخسارِ شفق رشک سے ہوتا ہُوا اشک
عارضِ گُل پہ رُکے تو اُسے ممتاز کرے

وقت ضائع کرے ' گر کوئی گرفتار ترا
تیرے جادو سے نکلنے کو تگ و تاز کرے

تیری نسبت کا شرف مجھ سے انا پرور کو
منصبِ اَوجِ تغافل پہ سرافراز کرے

تیری تعریف رکھے میرے قصائد کا بھرم
تیری توصیف مجھے لائقِ اعزاز کرے

میری خوش گوئی پہ ہی ختم نہیں تیری عطا
تیرے ہونٹوں سے زمانہ سخن آغاز کرے

دعوتِ خاص نہ ہو ، دیکھ کے حافظ یہ غزل
یہی کافی ہے اگر دعوتِ شیراز کرے
 
Top