نوید ناظم
محفلین
غمِ ہجر کو یوں زیادہ کیا ہے
اُسے بھولنے کا ارادہ کیا ہے
وہی ہے معانی کی گہرائی اب بھی
بس الفاظ کو تھوڑا سادہ کیا ہے
یہ صحرا کے دل سے نکالیں گے چشمہ
پیاسوں نے مل کے اعادہ کیا ہے
تِرے درد سے ہم نے غزلیں بنا لِیں
بڑا درد سے استفادہ کیا ہے
نوید اب کسی اور کا یہ نہ ہو گا
دلِ زخم خوردہ نے وعدہ کیا ہے
اُسے بھولنے کا ارادہ کیا ہے
وہی ہے معانی کی گہرائی اب بھی
بس الفاظ کو تھوڑا سادہ کیا ہے
یہ صحرا کے دل سے نکالیں گے چشمہ
پیاسوں نے مل کے اعادہ کیا ہے
تِرے درد سے ہم نے غزلیں بنا لِیں
بڑا درد سے استفادہ کیا ہے
نوید اب کسی اور کا یہ نہ ہو گا
دلِ زخم خوردہ نے وعدہ کیا ہے