اسامہ جمشید
محفلین
غم سنا کہ اٹھتے ہیں
رو رولا کہ اٹھتے ہیں
رو رولا کہ اٹھتے ہیں
آج اپنے ہاتھوں سے
مے پلا کہ اٹھتے ہیں
لوگ اپنے رازوں کو
کیوں بتاکہ اٹھتے ہیں
اہل زر کی عادت ہے
لُٹ لٹاکہ اٹھتے ہیں
اٹھ کہ دیکھ لو تم بھی
ہم جگا کہ اٹھتے ہیں
خوں بہا کہ بیٹھے تھے
خوں بہا کہ اٹھتے ہیں
راجپوت جنگوں میں
سر کٹا کہ اٹھتے ہیں
موت سب کو آنی ہے
مل ملا کہ اٹھتے ہیں
مل ملا کہ اٹھتے ہیں
جن کو کچھ نہیں آتا
منہ اٹھا کہ اٹھتے ہیں
آج ساری نفرت کو
پھر مٹا کہ اٹھتے ہیں
انتظار کرتے ہیں
مُک مُکا کہ اٹھتے ہیں
گر کسی کی شادی ہو
سج سجا کہ اٹھتے ہیں
کچھ یہاں محافظ ہیں
گھر جلا کہ اٹھتے ہیں
تم کو نیند آئی ہے
ہم سلا کہ اٹھتے ہیں
میکدے کو جاتے ہیں
مار کھا کہ اٹھتے ہیں