محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
غم سے جب دو چار ہوتا ہی نہیں
آدمی بیدار ہوتا ہی نہیں
وہ تو رسمًا پوچھ لیتے ہیں مگر
ہم سے پھر انکار ہوتا ہی نہیں
یہ کسی مزدور سے مت پوچھنا
اُن کے ہاں اتوار ہوتا ہی نہیں
رات بھی ہو اور سورج بھی رہے
یوں تو میرے یار ہوتا ہی نہیں
کس طرح کہہ لیتے ہیں وہ دل کی بات
ہم سے تو اظہار ہوتا ہی نہیں
سامنے سے وار ہو گا جب ہوا
ہم سے چھُپ کر وار ہوتا ہی نہیں
صرف اچھّا ہوتا ہے کردار بس
یا تو پھر کردار ہوتا ہی نہیں
یہ خدا کی خاص نعمت ہے اسد
ہر کسی کو پیار ہوتا ہی نہیں
اسد اقبال
آدمی بیدار ہوتا ہی نہیں
وہ تو رسمًا پوچھ لیتے ہیں مگر
ہم سے پھر انکار ہوتا ہی نہیں
یہ کسی مزدور سے مت پوچھنا
اُن کے ہاں اتوار ہوتا ہی نہیں
رات بھی ہو اور سورج بھی رہے
یوں تو میرے یار ہوتا ہی نہیں
کس طرح کہہ لیتے ہیں وہ دل کی بات
ہم سے تو اظہار ہوتا ہی نہیں
سامنے سے وار ہو گا جب ہوا
ہم سے چھُپ کر وار ہوتا ہی نہیں
صرف اچھّا ہوتا ہے کردار بس
یا تو پھر کردار ہوتا ہی نہیں
یہ خدا کی خاص نعمت ہے اسد
ہر کسی کو پیار ہوتا ہی نہیں
اسد اقبال