محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
غم سے گھبرا کے قیامت کا طلب گار نہ بن
اتنا مایوسِ کرم اے دلِ بیمار نہ بن
خواہشِ دید ہے تو تابِ نظر پیدا کر
ورنہ بہتر ہے یہی طالبِ دیدار نہ بن
مجھے منظور ہے یہ برق گرا دے مجھ پر
مجھ سے بیگانہ مگر اے نگہِ یار نہ بن
دامنِ حال کو بھی پھولوں سے بھر دے ناداں
صرف مستقبلِ رنگیں کا طرفدار نہ بن
بالیقیں منزلِ مقصود ملے گی مجھ کو
نا امیدی تو مری راہ کی دیوار نہ بن
ہے رہائی کی تمنا تو گرا دے دیوار
قید زنداں میں رہینِ غمِ دیوار نہ بن
لائقِ حمد ہے وہ جس کی ضیا ہے ان میں
کم نظر چاند ستاروں کا پرستار نہ بن
میں خطا وار ہوں تو مجھ کو مٹا دے صیاد
سارے گلشن کے لئے باعثِ آزار نہ بن
ایسے اقدام کا حاصل ہے یہاں ناکامی
بزم ساقی ہے یہ کشفیؔ یہاں خوددار نہ بن
اتنا مایوسِ کرم اے دلِ بیمار نہ بن
خواہشِ دید ہے تو تابِ نظر پیدا کر
ورنہ بہتر ہے یہی طالبِ دیدار نہ بن
مجھے منظور ہے یہ برق گرا دے مجھ پر
مجھ سے بیگانہ مگر اے نگہِ یار نہ بن
دامنِ حال کو بھی پھولوں سے بھر دے ناداں
صرف مستقبلِ رنگیں کا طرفدار نہ بن
بالیقیں منزلِ مقصود ملے گی مجھ کو
نا امیدی تو مری راہ کی دیوار نہ بن
ہے رہائی کی تمنا تو گرا دے دیوار
قید زنداں میں رہینِ غمِ دیوار نہ بن
لائقِ حمد ہے وہ جس کی ضیا ہے ان میں
کم نظر چاند ستاروں کا پرستار نہ بن
میں خطا وار ہوں تو مجھ کو مٹا دے صیاد
سارے گلشن کے لئے باعثِ آزار نہ بن
ایسے اقدام کا حاصل ہے یہاں ناکامی
بزم ساقی ہے یہ کشفیؔ یہاں خوددار نہ بن