تبسم غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا ۔ صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہوگا

آج کس یاد سے چمکی تری چشمِ پرُ نم
جانے یہ کس کے مقدّر کا ستارا ہو گا

جانے اب حُسن لٹائے گا کہاں دولتِ درد
جانے اب کس کو غمِ عشق کا یارا ہوگا

تیرے چھُپنے سے چھپیں گی نہ ہماری یادیں
تو جہاں ہوگا وہیں ذکر ہمارا ہوگا

یوں جدائی تو گوارا تھی ، یہ معلوم نہ تھا
تجھ سے یوں مل کے بچھڑنا بھی گوارا ہوگا

چھوڑ کر آئے تھے جب شہرِ تمنّا ہم لوگ
مدتوں راہگذاروں نے پکارا ہوگا

مسکراتا ہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ
تبسّم بھی کوئی درد کا مارا ہوگا

(صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم)
 

Saraah

محفلین
واہ بہت خوب

چھوڑ کر آئے تھے جب شہرِ تمنّا ہم لوگ
مدتوں راہگذاروں نے پکارا ہوگا

بہت خوبصورت انتخاب
 

جیہ

لائبریرین
خوب۔ مقطع میں صوفی صاحب نے اپنے تخلص کا کتنا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ اپنے طرف بھی اشارہ ہے اور اسے لغوی معنوں میں لے سکتے ہیں۔ کمال ہے ہمارے مغل بھائی اس کو عیب بتاتے ہیں:)
 

زین

لائبریرین
بہت خوب ، مجھے بہت پسند آئی یہ غزل

شکریہ فرخ‌بھائی شریکِ محفل کرنے کا
 
Top