فرخ منظور
لائبریرین
غزل
غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہوگا
آج کس یاد سے چمکی تری چشمِ پرُ نم
جانے یہ کس کے مقدّر کا ستارا ہو گا
جانے اب حُسن لٹائے گا کہاں دولتِ درد
جانے اب کس کو غمِ عشق کا یارا ہوگا
تیرے چھُپنے سے چھپیں گی نہ ہماری یادیں
تو جہاں ہوگا وہیں ذکر ہمارا ہوگا
یوں جدائی تو گوارا تھی ، یہ معلوم نہ تھا
تجھ سے یوں مل کے بچھڑنا بھی گوارا ہوگا
چھوڑ کر آئے تھے جب شہرِ تمنّا ہم لوگ
مدتوں راہگذاروں نے پکارا ہوگا
مسکراتا ہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ تبسّم بھی کوئی درد کا مارا ہوگا
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم)
غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہوگا
آج کس یاد سے چمکی تری چشمِ پرُ نم
جانے یہ کس کے مقدّر کا ستارا ہو گا
جانے اب حُسن لٹائے گا کہاں دولتِ درد
جانے اب کس کو غمِ عشق کا یارا ہوگا
تیرے چھُپنے سے چھپیں گی نہ ہماری یادیں
تو جہاں ہوگا وہیں ذکر ہمارا ہوگا
یوں جدائی تو گوارا تھی ، یہ معلوم نہ تھا
تجھ سے یوں مل کے بچھڑنا بھی گوارا ہوگا
چھوڑ کر آئے تھے جب شہرِ تمنّا ہم لوگ
مدتوں راہگذاروں نے پکارا ہوگا
مسکراتا ہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ تبسّم بھی کوئی درد کا مارا ہوگا
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم)