غم نہیں مجھ کو جو وقتِ امتحاں مارا گیا - اثر لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(شاعرِ فصیح اللسان ، ناظمِ بلیغ البیان، شمس العلما جناب مولوی نواب سید امداد امام صاحب بہادر رئسِ اعظم پٹنہ المتخلص بہ اثر لکھنوی )​

غم نہیں مجھ کو جو وقتِ امتحاں مارا گیا
خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جانِ جاں مارا گیا

تیغِ ابرو سے دلِ عاشق کو ملتی کیا پناہ
جو چڑھا مُنہ پر اجل کے بے گماں مارا گیا

منزلِ معشوق تک پُہنچا سلامت کب کوئی
رہزنوں سے کارواں کا کارواں مارا گیا

دوستی کی تم نے دشمن سے ، عجب تم دوست ہو
میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا

زہر سے کچھ کم نہ تھی دعوت مِری غیروں کے ساتھ
کیا غضب ہے گھر بُلا کر مہماں مارا گیا

دشتِ غربت، رنجِ تنہائی، ہجومِ درد و یاس
اِن بلاؤں میں ترا عاشق کہاں مارا گیا

کیا ہلاکِ عشق تیرے گیسوؤ ں کا تھا اثر
سنبلستاں ہوگیا ہے دو جہاں مارا گیا
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ صاحب دنیائے شاعری میں 'اثر لکھنوی' کے نام سے جانے جاتے ہیں، سو پلیز عنوان میں بھی اثر لکھنوی کر دیں۔

شکریہ غزل شیئر کرنے کیلیے۔
 
Top