کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
غم نہیں ہے ہمیں ملال نہیں
حال یہ ہے کہ کوئی حال نہیں
اب ستم ہو تو کیا، کرم ہو تو کیا
اب کسی بات کا خیال نہیں
اک نظر کہہ گئی جو کہنا تھا
ہر نظر مائلِ سوال نہیں
اب تو کچھ کچھ سکوں بھی ملتا ہے
مضطرب ہوں مگر حال نہیں
اپنی بربادیوں کا کیوں غم ہو
یہ تو آغازِ ہے مآل نہیں
مل چکا مجھ کو جو بھی ملنا تھا
اب مجھے حسرتِ سوال نہیں
بیت جاتے ہیں دن بھی ساون کے
میری توبہ کا اب وہ حال نہیں
ساری دنیا ہے منفعل، لیکن
ان نگاہوں کو انفعال نہیں
اب تو ہے اپنی جستجو مجھ کو
ان کا ملنا تو کچھ محال نہیں
اب تو یہ سر ہے اور وہ نقشِ قدم
سر اُٹھاؤں میری مجال نہیں
تیرا جلوہ رہے قیامت تک
عشق پابند ہر جمال نہیں
ضبط کرنا کمال ہے بہزاد
آہ کرنا کوئی کمال نہیں
(بہزاد لکھنوی)
غم نہیں ہے ہمیں ملال نہیں
حال یہ ہے کہ کوئی حال نہیں
اب ستم ہو تو کیا، کرم ہو تو کیا
اب کسی بات کا خیال نہیں
اک نظر کہہ گئی جو کہنا تھا
ہر نظر مائلِ سوال نہیں
اب تو کچھ کچھ سکوں بھی ملتا ہے
مضطرب ہوں مگر حال نہیں
اپنی بربادیوں کا کیوں غم ہو
یہ تو آغازِ ہے مآل نہیں
مل چکا مجھ کو جو بھی ملنا تھا
اب مجھے حسرتِ سوال نہیں
بیت جاتے ہیں دن بھی ساون کے
میری توبہ کا اب وہ حال نہیں
ساری دنیا ہے منفعل، لیکن
ان نگاہوں کو انفعال نہیں
اب تو ہے اپنی جستجو مجھ کو
ان کا ملنا تو کچھ محال نہیں
اب تو یہ سر ہے اور وہ نقشِ قدم
سر اُٹھاؤں میری مجال نہیں
تیرا جلوہ رہے قیامت تک
عشق پابند ہر جمال نہیں
ضبط کرنا کمال ہے بہزاد
آہ کرنا کوئی کمال نہیں