سیدہ سارا غزل
معطل
غم پلے سینے میں ہونٹوں پر ہنسی ہے رقص میں
کس دوراہے پر مری خود آگہی ہے رقص میں
خشک آنکھوں پر برستی ہی نہیں دل کی گھٹا
بہتے دریا کے لبوں پر تشنگی ہے رقص میں
آرزو کے بند دروازوں پہ دستک دے ذرا
کس لئے کمروں میں قیدی روشنی ہے رقص میں
درد کے چڑھتے ہوئے سورج سے آنکھیں تو ملا
کیوں ترے رستے میں حائل روشنی ہے رقص میں
مضطرب رہنے لگا دل ہونٹ سی لینے کے بعد
روح پر سنگِ ملامت کی جھڑی ہے رقص میں
سر پہ ہے شمشیر ہر پل ہجر کی لٹکی ہوئی
دل کے آنگن میں سجن کی مورتی ہے رقص میں
تیرگی ایسی کہ روشن کر گئی آنکھیں غزل
اور منور شہرِ دل کی ہر گلی ہے رقص میں
سیدہ سارا زوہیب غزل
کس دوراہے پر مری خود آگہی ہے رقص میں
خشک آنکھوں پر برستی ہی نہیں دل کی گھٹا
بہتے دریا کے لبوں پر تشنگی ہے رقص میں
آرزو کے بند دروازوں پہ دستک دے ذرا
کس لئے کمروں میں قیدی روشنی ہے رقص میں
درد کے چڑھتے ہوئے سورج سے آنکھیں تو ملا
کیوں ترے رستے میں حائل روشنی ہے رقص میں
مضطرب رہنے لگا دل ہونٹ سی لینے کے بعد
روح پر سنگِ ملامت کی جھڑی ہے رقص میں
سر پہ ہے شمشیر ہر پل ہجر کی لٹکی ہوئی
دل کے آنگن میں سجن کی مورتی ہے رقص میں
تیرگی ایسی کہ روشن کر گئی آنکھیں غزل
اور منور شہرِ دل کی ہر گلی ہے رقص میں
سیدہ سارا زوہیب غزل