سیدہ سارا غزل
معطل
غم کی بے پناہی میں دل نے حوصلہ پایا
تیرگی کے جنگل میں چشمہء ضیا پایا
٭
آفتاب کا پیکر بن گیا بدن اپنا
روشنی میں سائے کا سحر ٹوٹتا پایا
٭
کھل گئی جو آنکھ اپنی وقت کی صدا سن کر
انگنت جہانوں کا در کھلا ہوا پایا
٭
ہر قدم پہ ساتھ اپنے خود کو دیکھتے ہیں ہم
ہمسفر کوئی اپنا اب نہ دوسرا پایا
٭
مدتوں کے بعد ان سے اس طرح ملے ہیں ہم
اجنبی کوئی جیسے صورت آشنا پایا
٭
عشق کے سمندر میں ہجر کے بھنور دیکھے
وصل کی تمنا میں حشر کا مزا پایا
٭
گرد میں ہوا جو گم قافلہ زمانے کا
ماہتاب کو اپنے سائے میں پڑا پایا
٭
لے اڑی غزلؔ آخر زندگی کی طغیانی
روح کے سمندر میں جسم ڈوبتا پایا
٭
سیدہ سارا غزلؔ ہاشمی