غم کی پونجی تو گنوانے سے رہے ! ۔۔۔ ایک غزل

احباب اردو محفل کی خدمت میں ایک غزل پیش ہے۔ آپ کی آراء کا منتظر رہونگا۔
----------------------------------------------
غم کی پونجی تو گنوانے سے رہے !
درد سے کہہ دو، ٹھکانے سے رہے !

صدقہِ دولتِ ہجراں ہی سہی
اشک اب ہم تو بہانے سے رہے !

اس محبّت کو، عقیدہ نہ کریں!
الجھنیں، اور بڑھانے سے رہے !

سوزشِ جان فُزُوں ہے ، تو رہے !
ہم لگی دل کی، بجھانے سے رہے !

روز آتے ہیں تو آئیں آلام !
ہم یہ مہمان، بھگانے سے رہے !

ہر سکوں، مجھ سے خفا ہو کے گیا
روٹھے!، اب ہم تو منانے سے رہے !

اب نہ مانگیں گے، نئی کوئی دعا
پھر نیا درد، جگانے سے رہے !

اک نِدامت کا، گِراں بوجھ ہے جو
ہاں، وہ قِصّہ تو سنانے سے رہے !

اوپری دل سے یوں پوچھو گے اگر
حال اپنا تَو، سنانے سے رہے !

کہنے کو کہہ تو دیں کاشف، لیکن
ہر خلش دل کی، مٹانے سے رہے !

سیّد کاشف
----------------------------------------------
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
روز آتے ہیں تو آئیں آلام !
ہم یہ مہمان، بھگانے سے رہے !

اب نہ مانگیں گے، نئی کوئی دعا
پھر نیا درد، جگانے سے رہے !

اک نِدامت کا، گِراں بوجھ ہے جو
ہاں، وہ قِصّہ تو سنانے سے رہے !

سبحان اللہ۔

خوب غزل ہے بھائی!

شاد آباد رہیے۔ :)
 
Top