کاشف اسرار احمد
محفلین
احباب اردو محفل کی خدمت میں ایک غزل پیش ہے۔ آپ کی آراء کا منتظر رہونگا۔
----------------------------------------------
----------------------------------------------
غم کی پونجی تو گنوانے سے رہے !
درد سے کہہ دو، ٹھکانے سے رہے !
صدقہِ دولتِ ہجراں ہی سہی
اشک اب ہم تو بہانے سے رہے !
اس محبّت کو، عقیدہ نہ کریں!
الجھنیں، اور بڑھانے سے رہے !
سوزشِ جان فُزُوں ہے ، تو رہے !
ہم لگی دل کی، بجھانے سے رہے !
روز آتے ہیں تو آئیں آلام !
ہم یہ مہمان، بھگانے سے رہے !
ہر سکوں، مجھ سے خفا ہو کے گیا
روٹھے!، اب ہم تو منانے سے رہے !
اب نہ مانگیں گے، نئی کوئی دعا
پھر نیا درد، جگانے سے رہے !
اک نِدامت کا، گِراں بوجھ ہے جو
ہاں، وہ قِصّہ تو سنانے سے رہے !
اوپری دل سے یوں پوچھو گے اگر
حال اپنا تَو، سنانے سے رہے !
کہنے کو کہہ تو دیں کاشف، لیکن
ہر خلش دل کی، مٹانے سے رہے !
سیّد کاشف
----------------------------------------------درد سے کہہ دو، ٹھکانے سے رہے !
صدقہِ دولتِ ہجراں ہی سہی
اشک اب ہم تو بہانے سے رہے !
اس محبّت کو، عقیدہ نہ کریں!
الجھنیں، اور بڑھانے سے رہے !
سوزشِ جان فُزُوں ہے ، تو رہے !
ہم لگی دل کی، بجھانے سے رہے !
روز آتے ہیں تو آئیں آلام !
ہم یہ مہمان، بھگانے سے رہے !
ہر سکوں، مجھ سے خفا ہو کے گیا
روٹھے!، اب ہم تو منانے سے رہے !
اب نہ مانگیں گے، نئی کوئی دعا
پھر نیا درد، جگانے سے رہے !
اک نِدامت کا، گِراں بوجھ ہے جو
ہاں، وہ قِصّہ تو سنانے سے رہے !
اوپری دل سے یوں پوچھو گے اگر
حال اپنا تَو، سنانے سے رہے !
کہنے کو کہہ تو دیں کاشف، لیکن
ہر خلش دل کی، مٹانے سے رہے !
سیّد کاشف
آخری تدوین: