کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، جانِ بہار آگیا
جو تھا چمن کا مدّعا، آخرِ کار آگیا
بزمِ خیال میں جو وہ شعبدہ کار آگیا
دل کو سکون مل گیا، مجھ کو قرار آگیا
دستِ گدا نواز کا طرفہ کرم تو دیکھئے
دستِ گدا میں بے طلب دامنِ یار آگیا
چشمِ کرم میں رنگ ہے آج تو کچھ عتاب کا
میری طرف سے آہ کیوں دل میں غبار آگیا
کرلے یہاں پہ پے بہ پے خوب سجودِ عاشقی
اے دلِ مبتلا سنبھل کوچہء یار آگیا
میرے تو ایک لفظ سے ہل گئے دو جہاں کے دل
میرا کمال دیکھئے میں سرِ دار آگیا
ہائے وہ خوش نصیب عشق جس کو سکوں نہیں ملا
ہائے وہ بدنصیب عشق جس کو قرار آگیا
اپنے تصورات میں کھینچ لیا بہار کو
ہم کو تو اس خزاں میں بھی لطفِ بہار آگیا
ساقیء بےخبر مجھے اس کی ذرا خبر نہیں
کس کو نہیں ہوا خمار، کس کو خمار آگیا
(بہزاد لکھنوی)
غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، جانِ بہار آگیا
جو تھا چمن کا مدّعا، آخرِ کار آگیا
بزمِ خیال میں جو وہ شعبدہ کار آگیا
دل کو سکون مل گیا، مجھ کو قرار آگیا
دستِ گدا نواز کا طرفہ کرم تو دیکھئے
دستِ گدا میں بے طلب دامنِ یار آگیا
چشمِ کرم میں رنگ ہے آج تو کچھ عتاب کا
میری طرف سے آہ کیوں دل میں غبار آگیا
کرلے یہاں پہ پے بہ پے خوب سجودِ عاشقی
اے دلِ مبتلا سنبھل کوچہء یار آگیا
میرے تو ایک لفظ سے ہل گئے دو جہاں کے دل
میرا کمال دیکھئے میں سرِ دار آگیا
ہائے وہ خوش نصیب عشق جس کو سکوں نہیں ملا
ہائے وہ بدنصیب عشق جس کو قرار آگیا
اپنے تصورات میں کھینچ لیا بہار کو
ہم کو تو اس خزاں میں بھی لطفِ بہار آگیا
ساقیء بےخبر مجھے اس کی ذرا خبر نہیں
کس کو نہیں ہوا خمار، کس کو خمار آگیا