ساغر صدیقی غنچے فضائے نو میں گرفتار ہو گئے

غنچے فضائے نو میں گرفتار ہو گئے
کچھ پهول اپنے رنگ سے بیزار ہو گئے

کتنے تصورات ہواؤں میں اڑ گئے
کتنے خیال سایہِ دیوار ہو گئے

شبلی کا پهول جذبہِ منصور کی صدا
راہِ وفا میں تیغ کی جهنکار ہو گئے

ڈهلتی رہیں شعور میں تاروں کی تابشیں
اک جام پی کے صاحبِ اسرار ہو گئے

ہم بیکسوں کا چاند کی کرنوں سے واسطہ
زلفوں کو چُھو لیا تو خطاکار ہو گئے

دل کی چبھن نے کیفِ تمنا بڑھا دیا
کانٹے بھی آج صورتِ گلزار ہو گئے

پروانے بن گئے ہیں چنبیلی کی نکہتیں
کیا! دیکھنا کہ صبح کے آثار ہو گئے

ساغر کا بجلیوں نے سماں اور کر دیا
ہم ظلمتوں سے کهیل کے انوار ہو گئے​
ساغر صدیقی
 
Top