غنی بابا کی شاہکار پشتو نظم کا اردو ترجمہ

عینی مروت

محفلین
السلام علیکم حاضرینِ محفل
اپنی نئی تخلیق کے ساتھ حاضر ہوں،جو کہ پشتو زبان کے بلند پایہ شاعر (ادبی حلقوں میں دیوانے فلسفے کے شاعر یا دیوانہ فلسفی کہلاتے ہیں)خان عبد الغنی خان کی شاہکار نظم کا ترجمہ ہے۔۔اسے آپ آزاد نظم کہہ سکتے ہیں ۔اسکی نوک پلک درست کرنے کے لیے آپکے تبصروں اور مشوروں کا انتظار رہیگا۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ

«۔۔۔گلِ لالہ۔۔۔«

میں ایک دن شکار پر جو دشت میں رواں ہوا
ملا حسین پھول کوئی راہ میں کھلا ہوا
دلِ حزیں لیے،قریب جاکے میں نے عرض کی
سیہ نصیب گل ہے تو بھی ،آہ! میری ہی طرح
وہ گل جو زلفِ یار سے بچھڑ کے کھو گیا کہیں
جسے نہ آشنا کریں گی اپنے رخ کے لمس سے
کسی حسین و نازنیں کی نرم و نازک انگلیاں
نہ پھر تجھے نصیب بوسۂ لبانِ احمریں

یہ سن کے پھول دھیمی سی ادا سے مسکرا دیا
کہا کہ 'خان'، چاک کر یہ پردۂ فسردگی!!
نہیں قبول گر مجھے ،اسی مقام کے عوض
چمن گہِ ایران میں ملے کوئی جگہ کبھی!!
اسی اکیلےپن سے ہے ملی مجھے یگانگی
تو کیا اگر چمن میں واں ہزار ہیں گلِ حسیں!؟

مرے چہار سو اگر ہے دشتِ بےاماں تو کیا
ہوں مست اپنی ذات میں،کہ رنگ ہوں میں ضوفشاں
خموش سازِ حسن ہوں ،کرشمہ ہائے لامکاں
ترے چمن میں پھول ہونگے ان گنت مری طرح
جوں سرخ بحرِ بےنشاں میں ایک بوند بے نشاں

برادرم نہ تو بھی اپنے ریگزارِ زیست میں
کبھی نہ محوِ یاس ہو کبھی نہ ہو خفا خفا
کہ دور اب وہ دن نہیں،(سراہ لے تجھے کوئی)
جب آئے تیری دید کو 'غنی' سا کوئی دل جلا!!

نظم۔۔ رېدي ګل
شاعر :غنی خان
ترجمہ:نور العین عینی


رېدي ګل

یوه ورځی يو صحرا کې په ښکار وتے وم روان
يو ګلاب مې ولاړ وليد، پړقيده خائسته خندان
زه خفه ئې خوا له لاړم ما ويل اه!زما په شان
ته هم ګل ئې بدنصيبه ورک د زلفو د جانان
نه د چا نيازبينې ګوتې نرم مخ له به دې يؤسي
نه به ښکل دې کړي سرې شونډې د يار سره نازک لبان

هغه غلے شان مسکے شو وي خان مه کوه خفګان
زه به دا صحرا ورنکړم د ايران په ګلستان
دلته زه يو او يکتا يم هلته زر زما په شان
چار چاپيره سپيرې خاورې زه يوازے يم روښان
دلته دې تور ريګستان کې زه د رنګ او نور لمبه يم
د خائست چپه نغمه يم کرشمه د لامکان

ستا په باغ کې په زرګونو دي ګلاب زما په شان
يو بے نومه سور درياب کې يو بے نوم څاڅکي روان
ته دې هم په خپل صحرا کې خپه مه شې زما روره

اخر را به شي ديدن له دې څوک سوے غنی خان


غنی بابا کا تعارف وکی پر ملاحظہ کریں

http://ur.wikipedia.org/wiki/خان_عبدالغنی_خان
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عینی صاحبہ ۔بہت اچھا ترجمہ ہے ، بہر حال بہت خوب ۔اصل پشتو تک تو رسائی نہیں مگرمجموعی طور پر یہ ترجمہ پھر بھی اصل سے بے نیاز کہا جاسکتا ہے۔ البتہ :
کہیں کہیں کچھ محاورہ کمزور ہے اور قوافی کچھ منظم نہیں۔ اگر اس کا خیال رکھا جائے تو بہت بہترین نظم ہے۔
مثلاً شکار پر "رواں ہونا" ۔یہاں نکل پڑا نکل چلا نکل گیا وغیرہ ہوں ۔ ایران کو اران باندھا گیا ہے اچھا نہیں لگ رہا ۔لبان کی ترکیب اردو زبان میں ڈھلی نہیں لگتی۔وغیرہ۔۔۔۔
کہیں لفظی ترتیب سے اسلوب بہتراور رواں ہو سکتا ہے۔مثلاً
جوں سرخ بحرِ بےنشاں میں ایک بوند بے نشاں۔۔۔۔۔یہان جوں کا "و" گرنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔ ایک ترتیب یہ دیکھیں۔( کہ جیسے بحرِ سرخ میں ہو ایک بوند بے نشاں)۔
 
السلام علیکم حاضرینِ محفل
اپنی نئی تخلیق کے ساتھ حاضر ہوں،جو کہ پشتو زبان کے بلند پایہ شاعر (ادبی حلقوں میں دیوانے فلسفے کے شاعر یا دیوانہ فلسفی کہلاتے ہیں)خان عبد الغنی خان کی شاہکار نظم کا ترجمہ ہے۔۔اسے آپ آزاد نظم کہہ سکتے ہیں ۔اسکی نوک پلک درست کرنے کے لیے آپکے تبصروں اور مشوروں کا انتظار رہیگا۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ

«۔۔۔گلِ لالہ۔۔۔«

میں ایک دن شکار پر جو دشت میں رواں ہوا
ملا حسین پھول کوئی راہ میں کھلا ہوا
دلِ حزیں لیے،قریب جاکے میں نے عرض کی
سیہ نصیب گل ہے تو بھی ،آہ! میری ہی طرح
وہ گل جو زلفِ یار سے بچھڑ کے کھو گیا کہیں
جسے نہ آشنا کریں گی اپنے رخ کے لمس سے
کسی حسین و نازنیں کی نرم و نازک انگلیاں
نہ پھر تجھے نصیب بوسۂ لبانِ احمریں

یہ سن کے پھول دھیمی سی ادا سے مسکرا دیا
کہا کہ 'خان'، چاک کر یہ پردۂ فسردگی!!
نہیں قبول گر مجھے ،اسی مقام کے عوض
چمن گہِ ایران میں ملے کوئی جگہ کبھی!!
اسی اکیلےپن سے ہے ملی مجھے یگانگی
تو کیا اگر چمن میں واں ہزار ہیں گلِ حسیں!؟

مرے چہار سو اگر ہے دشتِ بےاماں تو کیا
ہوں مست اپنی ذات میں،کہ رنگ ہوں میں ضوفشاں
خموش سازِ حسن ہوں ،کرشمہ ہائے لامکاں
ترے چمن میں پھول ہونگے ان گنت مری طرح
جوں سرخ بحرِ بےنشاں میں ایک بوند بے نشاں

برادرم نہ تو بھی اپنے ریگزارِ زیست میں
کبھی نہ محوِ یاس ہو کبھی نہ ہو خفا خفا
کہ دور اب وہ دن نہیں،(سراہ لے تجھے کوئی)
جب آئے تیری دید کو 'غنی' سا کوئی دل جلا!!

نظم۔۔ رېدي ګل
شاعر :غنی خان
ترجمہ:نور العین عینی


رېدي ګل

یوه ورځی يو صحرا کې په ښکار وتے وم روان
يو ګلاب مې ولاړ وليد، پړقيده خائسته خندان
زه خفه ئې خوا له لاړم ما ويل اه!زما په شان
ته هم ګل ئې بدنصيبه ورک د زلفو د جانان
نه د چا نيازبينې ګوتې نرم مخ له به دې يؤسي
نه به ښکل دې کړي سرې شونډې د يار سره نازک لبان

هغه غلے شان مسکے شو وي خان مه کوه خفګان
زه به دا صحرا ورنکړم د ايران په ګلستان
دلته زه يو او يکتا يم هلته زر زما په شان
چار چاپيره سپيرې خاورې زه يوازے يم روښان
دلته دې تور ريګستان کې زه د رنګ او نور لمبه يم
د خائست چپه نغمه يم کرشمه د لامکان

ستا په باغ کې په زرګونو دي ګلاب زما په شان
يو بے نومه سور درياب کې يو بے نوم څاڅکي روان
ته دې هم په خپل صحرا کې خپه مه شې زما روره

اخر را به شي ديدن له دې څوک سوے غنی خان


غنی بابا کا تعارف وکی پر ملاحظہ کریں

http://ur.wikipedia.org/wiki/خان_عبدالغنی_خان

بہت عمدہ عینی، پشتو شاعری کا یہ انداز و اسلوب مجھ سے مخفی ہی رہا۔ بہت اچھا لگا اور ترجمہ پڑھ کر بھی اچھا لگا۔
گلِ لالہ یا گواڑخ میرے پسندیدہ پھولوں میں سے ہیں اور انہیں دیکھتے رہنا بہت اچھا لگتا ہے۔
سید عاطف علی بھائی نے " نکل پڑا " بہت عمدہ تجویز دی ہے ۔
برسرِ تذکرہ آپ کے نام سے مجھے اپنی ایک اسٹوڈنٹ یاد آ گئیں عینی مروت لکھا کرتی تھیں وہ بھی خود کو۔
 

عینی مروت

محفلین
عینی صاحبہ ۔بہت اچھا ترجمہ ہے ، بہر حال بہت خوب ۔اصل پشتو تک تو رسائی نہیں مگرمجموعی طور پر یہ ترجمہ پھر بھی اصل سے بے نیاز کہا جاسکتا ہے۔ البتہ :
کہیں کہیں کچھ محاورہ کمزور ہے اور قوافی کچھ منظم نہیں۔ اگر اس کا خیال رکھا جائے تو بہت بہترین نظم ہے۔
مثلاً شکار پر "رواں ہونا" ۔یہاں نکل پڑا نکل چلا نکل گیا وغیرہ ہوں ۔ ایران کو اران باندھا گیا ہے اچھا نہیں لگ رہا ۔لبان کی ترکیب اردو زبان میں ڈھلی نہیں لگتی۔وغیرہ۔۔۔۔
کہیں لفظی ترتیب سے اسلوب بہتراور رواں ہو سکتا ہے۔مثلاً
جوں سرخ بحرِ بےنشاں میں ایک بوند بے نشاں۔۔۔۔۔یہان جوں کا "و" گرنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔ ایک ترتیب یہ دیکھیں۔( کہ جیسے بحرِ سرخ میں ہو ایک بوند بے نشاں)۔

پسندیدگی اور رہنمائی کے لیے آپکابہت شکریہ جی ۔۔۔میں ایک دن شکار پر جو دشت میں نکل پڑا
پہلے اس انداز سے لکھاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک دن شکار پر تھا دشت میں رواں دواں
کہ راہ میں ملا حسین پھول اک کھلا ہوا۔۔۔ اب تکنیکی لحاظ سے کونسا بہتر؟آپ سب کی حتمی رائے کا انتظار
کہ جیسے بحرِ سرخ میں ہو ایک بوند۔۔۔۔۔۔۔۔۔گو کہ اصل مصرعے سے ذرا سا ہٹ کر ہوا لیکن یہ ترتیب بہتر ہے

چمن گہِ ایران میں ۔۔۔۔۔یہاں کافی دفعہ الفاظ کی نشست بدلنے کے باوجود اران ہی باندھا جاتا ہے باقی اساتذہ سے بھی رہنمائی کی درخواست ہے
الف عین
محمد یعقوب آسی
 

عینی مروت

محفلین
بہت عمدہ عینی، پشتو شاعری کا یہ انداز و اسلوب مجھ سے مخفی ہی رہا۔ بہت اچھا لگا اور ترجمہ پڑھ کر بھی اچھا لگا۔
گلِ لالہ یا گواڑخ میرے پسندیدہ پھولوں میں سے ہیں اور انہیں دیکھتے رہنا بہت اچھا لگتا ہے۔
سید عاطف علی بھائی نے " نکل پڑا " بہت عمدہ تجویز دی ہے ۔
برسرِ تذکرہ آپ کے نام سے مجھے اپنی ایک اسٹوڈنٹ یاد آ گئیں عینی مروت لکھا کرتی تھیں وہ بھی خود کو۔
مننہ جی ۔۔۔۔شاعری اور ترجمہ سراہنے کے لیے :)
آپکی سٹوڈنٹ کہیں یہی عینی مروت نہ ہو!کہ اپنا شمار بھی اردو ادب کی مبتدی طالبات میں ہوتا ہے۔
 
پسندیدگی اور رہنمائی کے لیے آپکابہت شکریہ جی ۔۔۔میں ایک دن شکار پر جو دشت میں نکل پڑا
پہلے اس انداز سے لکھاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک دن شکار پر تھا دشت میں رواں دواں
کہ راہ میں ملا حسین پھول اک کھلا ہوا۔۔۔ اب تکنیکی لحاظ سے کونسا بہتر؟آپ سب کی حتمی رائے کا انتظار
کہ جیسے بحرِ سرخ میں ہو ایک بوند۔۔۔۔۔۔۔۔۔گو کہ اصل مصرعے سے ذرا سا ہٹ کر ہوا لیکن یہ ترتیب بہتر ہے

چمن گہِ ایران میں ۔۔۔۔۔یہاں کافی دفعہ الفاظ کی نشست بدلنے کے باوجود اران ہی باندھا جاتا ہے باقی اساتذہ سے بھی رہنمائی کی درخواست ہے
الف عین
محمد یعقوب آسی
بہت شکریہ عینی مروت۔ مجھے پشتو کا ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہے۔ جو اہلِ ذوق پشتو زبان و ادب سے مانوس ہیں، ان کی رائے کو اہمیت دیجئے۔ بہت آداب۔
 

عینی مروت

محفلین
بہت شکریہ عینی مروت۔ مجھے پشتو کا ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہے۔ جو اہلِ ذوق پشتو زبان و ادب سے مانوس ہیں، ان کی رائے کو اہمیت دیجئے۔ بہت آداب۔
سلامت رہیں محترم ،مجھے اسکا اندازہ ہے دراصل سید صاحب کے اس تبصرے پر جو انہوں نے 'اردو ترجمے' پر کیا تھا
۔
چمن گہِ ایران میں ملے کوئی جگہ کبھی
ایران کو اران باندھا گیا ہے اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔۔
اس سلسلے میں آپکی اور محترم الف عین صاحب کی مزید رہنمائی درکار تھی
چمن گہِ ایران میں ۔۔۔۔۔یہاں کافی دفعہ الفاظ کی نشست بدلنے کے باوجود اران ہی باندھا جاتا ہے
خیرکوئی بات نہیں۔۔۔۔۔آپکا شکریہ :)
 

سید ذیشان

محفلین
پسندیدگی اور رہنمائی کے لیے آپکابہت شکریہ جی ۔۔۔میں ایک دن شکار پر جو دشت میں نکل پڑا
پہلے اس انداز سے لکھاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک دن شکار پر تھا دشت میں رواں دواں
کہ راہ میں ملا حسین پھول اک کھلا ہوا۔۔۔ اب تکنیکی لحاظ سے کونسا بہتر؟آپ سب کی حتمی رائے کا انتظار
کہ جیسے بحرِ سرخ میں ہو ایک بوند۔۔۔۔۔۔۔۔۔گو کہ اصل مصرعے سے ذرا سا ہٹ کر ہوا لیکن یہ ترتیب بہتر ہے

چمن گہِ ایران میں ۔۔۔۔۔یہاں کافی دفعہ الفاظ کی نشست بدلنے کے باوجود اران ہی باندھا جاتا ہے باقی اساتذہ سے بھی رہنمائی کی درخواست ہے
الف عین
محمد یعقوب آسی

اس بحر میں ایران تو فٹ نہیں آتا کسی بھی جگہ پر۔ ایک طریقہ ہے کہ اگر اس کو ایراں کر دیا جائے اور آخری الف گرایا جائے۔ الف گرانا یہاں درست تو نہیں لیکن یہی ایک طریقہ ہے اس کو فٹ کرنے کا۔
ایران کا متبادل فارس بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد کا لفظ الف سے شروع ہونا چاہیے۔ ”فارس اس“، ”فارس اب“ وغیرہ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ منظوم ترجمہ (اور اتنے اچھے ترجمہ) میں لفظ ایران کے لیے ضروری نہیں کہ ایران ہی کو استعمال کیا جائے اس کے بجائے وطن استعمال کر لیا جائے تو بھی نا مناسب نہیں ہے۔مثلاً
چمن گہِ وطن میں ہی ملے کوئی جگہ کبھی۔۔۔(یہاں کبھی کے بجائے کہیں اچھا ہو گا ۔) ۔یعنی ۔۔۔۔چمن گہِ وطن میں ہی ملے کوئی جگہ کہیں ۔
بہر حال اپنا اپنا اختیا ر ہے۔ یہ صرف رائے ہے۔
 
اس بحر میں ایران تو فٹ نہیں آتا کسی بھی جگہ پر۔ ایک طریقہ ہے کہ اگر اس کو ایراں کر دیا جائے اور آخری الف گرایا جائے۔ الف گرانا یہاں درست تو نہیں لیکن یہی ایک طریقہ ہے اس کو فٹ کرنے کا۔
ایران کا متبادل فارس بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد کا لفظ الف سے شروع ہونا چاہیے۔ ”فارس اس“، ”فارس اب“ وغیرہ۔

اس بحر میں ایران، فارس وغیرہ تو آ ہی نہیں سکیں گے
پرشیا دیکھ لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ پرشیا کے گلکدوں میں کوئی کُنج پا سکوں
شاید کسی کام آ سکے۔
 
مزید تجویز
۔۔ یہ پرشیا کے گل کدے میں آشیاں بنا سکوں

ایک نوٹ کرنے کی بات ۔۔ لفظ ’’فارس‘‘ کے ہجے معمول سے ہٹ کر ہیں۔ فارس بر وزن ’’پوست‘‘ ’’ساخت‘‘ وغیرہ (یہ اس لفظ سے خاص ہے)۔
 

عینی مروت

محفلین
اس بحر میں ایران تو فٹ نہیں آتا کسی بھی جگہ پر۔ ایک طریقہ ہے کہ اگر اس کو ایراں کر دیا جائے اور آخری الف گرایا جائے۔ الف گرانا یہاں درست تو نہیں لیکن یہی ایک طریقہ ہے اس کو فٹ کرنے کا۔
ایران کا متبادل فارس بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد کا لفظ الف سے شروع ہونا چاہیے۔ ”فارس اس“، ”فارس اب“ وغیرہ۔
تجویز تو عمدہ ہے ذیشان بھائی لیکن ایران کی طرح فارس لکھنے سے بھی شاید بحر کی روانی میں فرق آئے

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ منظوم ترجمہ (اور اتنے اچھے ترجمہ) میں لفظ ایران کے لیے ضروری نہیں کہ ایران ہی کو استعمال کیا جائے اس کے بجائے وطن استعمال کر لیا جائے تو بھی نا مناسب نہیں ہے۔مثلاً
چمن گہِ وطن میں ہی ملے کوئی جگہ کبھی۔۔۔(یہاں کبھی کے بجائے کہیں اچھا ہو گا ۔) ۔یعنی ۔۔۔۔چمن گہِ وطن میں ہی ملے کوئی جگہ کہیں ۔
بہر حال اپنا اپنا اختیا ر ہے۔ یہ صرف رائے ہے۔

بالکل ، ترجمے میں کبھی کبھی ایسا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن جیسا کہ اس نظم میں پھول نے ایک طرح سے بیابان اورچمن کدۂ ایران کا موازنہ کیا ہے(یعنی کہاں بے آب و گیاہ، گمنام صحرا اور کہاں "سرزمین ایران" کے سرسبز و شاداب گل کدے۔۔۔۔ لیکن اسکی ترجیح پھر وہی دشتِ بے اماں ہے)کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے بجائے وطن لکھنا اس گلستاں کو عمومیت دیتا ہے جو شاید یہاں تقابلی تقاضوں کو پورا نہ کر سکے ۔لیکن یہ محض میرا خیال ہے
بہرحال تجاویزکے لیے آپ دونوں کی مشکور ہوں
 

عینی مروت

محفلین
اس بحر میں ایران، فارس وغیرہ تو آ ہی نہیں سکیں گے
پرشیا دیکھ لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ پرشیا کے گلکدوں میں کوئی کُنج پا سکوں
شاید کسی کام آ سکے۔
مزید تجویز
۔۔ یہ پرشیا کے گل کدے میں آشیاں بنا سکوں

ایک نوٹ کرنے کی بات ۔۔ لفظ ’’فارس‘‘ کے ہجے معمول سے ہٹ کر ہیں۔ فارس بر وزن ’’پوست‘‘ ’’ساخت‘‘ وغیرہ (یہ اس لفظ سے خاص ہے)۔
بہت خوووب!آپکی تجویزنے میرے خیالات کو نیا سرا تھما دیا محترم !بہت نوازش
اس قابل قدر رائے کے مطابق اب اسے یوں لکھیں تو قریب ترین ترجمہ کہلا سکتا ہے

نہیں قبول گر کہیں ،اسی مقام کے عوض
میں پرشیا کے گل کدوں کی آرزو کروں کبھی !۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوووب!آپکی تجویزنے میرے خیالات کو نیا سرا تھما دیا محترم !بہت نوازش
اس قابل قدر رائے کے مطابق اب اسے یوں لکھیں تو قریب ترین ترجمہ کہلا سکتا ہے
نہیں قبول گر کہیں ،اسی مقام کے عوض
میں پرشیا کے گل کدوں کی آرزو کروں کبھی !۔
پرشیا میں کچھ فرنگی اجنبیت کی باس محسوس ہوئی ( مجھے) ۔البتہ جیسے آپ کا مزاج چاہے۔:)
 
Top