ملک حبیب
محفلین
وہ ظاہر ہے پَسِ خلوت نہیں ہے
نظر آتا ہے بے صورت نہیں ہے
مُحیطِ ذات سے نکلا تو دیکھا
جُدا مجھ سے تری صورت نہیں ہے
ہے پِنہاں ایک دریا میرے اندر
یہاں اشکوں کی کچھ قِلت نہیں ہے
مری آنکھوں کو گویائی ملی ہے
مجھے لفظوں کی اب حاجت نہیں ہے
وفا کے نام سے ڈرتے ہو کیونکر
یہ سُنت ہے میاں بِدعت نہیں ہے
تمہاری بے نیازی پر بھی چُپ ہوں
وہ پہلی سی مِری حالت نہیں ہے
مِرے حِصے کی خوشیاں بانٹ ڈالو
غموں سے ہی مجھے فُرصت نہیں ہے
مجھے کچھ ضبط کرنا پڑ رہا ہے
وگرنہ یہ مری عادت نہیں ہے
دِل مُضطر کی بیتابی کا بدلہ
مرے مولا فقط جنت نہیں ہے
حبیب اِک شور سے اب واسطہ ہے
سکوں کی آجکل عادت نہیں ہے
کلام ملک حبیب
نظر آتا ہے بے صورت نہیں ہے
مُحیطِ ذات سے نکلا تو دیکھا
جُدا مجھ سے تری صورت نہیں ہے
ہے پِنہاں ایک دریا میرے اندر
یہاں اشکوں کی کچھ قِلت نہیں ہے
مری آنکھوں کو گویائی ملی ہے
مجھے لفظوں کی اب حاجت نہیں ہے
وفا کے نام سے ڈرتے ہو کیونکر
یہ سُنت ہے میاں بِدعت نہیں ہے
تمہاری بے نیازی پر بھی چُپ ہوں
وہ پہلی سی مِری حالت نہیں ہے
مِرے حِصے کی خوشیاں بانٹ ڈالو
غموں سے ہی مجھے فُرصت نہیں ہے
مجھے کچھ ضبط کرنا پڑ رہا ہے
وگرنہ یہ مری عادت نہیں ہے
دِل مُضطر کی بیتابی کا بدلہ
مرے مولا فقط جنت نہیں ہے
حبیب اِک شور سے اب واسطہ ہے
سکوں کی آجکل عادت نہیں ہے
کلام ملک حبیب