غٖزل: اے جہانِ خراب میں نے بھی (مہدی نقوی حجازؔ)

غزل

اے جہانِ خراب میں نے بھی
کچھ بنائے تھے خواب میں نے بھی

دنیا اپنے نشے میں دھت ہے گر
پی رکھی ہے شراب میں نے بھی

تم نے جانے کیوں اس کو چوم لیا
اک دیا تھا گلاب میں نے بھی

کام یوں بھی بگڑ چکا تھا تو
کر دیا کچھ خراب میں نے بھی

میں بھی اب اک سوال اٹھاؤں گا
دے دیا ہے جواب میں نے بھی

پونچ کر ماں کے آنسو کچھ حاصل
کر لیا ہے ثواب میں نے بھی

سب منافق ہیں تو نفاق کی پھر
اوڑھ لی ہے نقاب میں نے بھی

لکھی ہے زندگی کی وحشت پر
اک ادھوری کتاب میں نے بھی

اس کھنڈر کی کسی زمانے میں
دیکھی ہے آب و تاب میں نے بھی

کر دی ہے اپنے پاؤں سے آزاد
زندگی کی رکاب میں نے بھی

تم بھی سر دھن نہیں رہے تھے حجازؔ
کھو دیا ہے رباب میں نے بھی

مہدی نقوی حجازؔ
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب، اصلاح سخن میں نہیں ہونے پر بھی کچھ جسارت کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
دنیا اپنے نشے میں دھت ہے گر
کو
دنیا اپنے نشے میں دھت ہے اگر

تم نے جانے کیوں اس کو چوم لیا
کو
اُس نے کیا جانے کیوں وہ چوم لیا

اور
کام یوں بھی بگڑ چکا تھا تو
کو
کام یوں بھی بگڑ چکا تھا ذرا
 
بہت خوب، اصلاح سخن میں نہیں ہونے پر بھی کچھ جسارت کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
دنیا اپنے نشے میں دھت ہے گر
کو
دنیا اپنے نشے میں دھت ہے اگر

تم نے جانے کیوں اس کو چوم لیا
کو
اُس نے کیا جانے کیوں وہ چوم لیا

اور
کام یوں بھی بگڑ چکا تھا تو
کو
کام یوں بھی بگڑ چکا تھا ذرا
جی حضور، بہ سر و چشم! :)
 
Top