طارق شاہ
محفلین
ترک تعلق
میرا جی
غیرآباد جزیروں میں چلا جاؤں گا
عمْر بھرلَوٹ کے میں پھرنہ کبھی آؤں گا
شہرمیں سانس بھی لینا ہے مجھے اب دو بھر
شہر کی تلْخ فضاؤں سے نِکل جاؤں گا
دُور جا بیٹھوں گا ہنگامۂ شوروشر سے
قلْبِ محزوں کو میں تنہائی سے بہلاؤں گا
قعرِ دریا کی حدیں راہ میں حائل ہوں گی
حسرتیں ساکنِ ظلمت کدۂ دل ہوں گی
رسمِ دُنیا ہے محبّت میں ہو تشنہ کامی
عشق کے خواب غم ودرد کے ہیں پیغامی
اِس جہاں سے مجھے رُسوائی ملی، ناکامی
اِس جہاں میں، میں رہا خستہ و خوار وعامی
اِس جہاں میں نہ کبھی روح کی بہجت دیکھی
اِس جہاں میں نہ کبھی راہ مسرّت دیکھی
اِس جہاں میں نہ کبھی لَوٹ کے میں آؤں گا
غیرآباد جزیروں میں چلا جاؤں گا
میرا جی