غیرت

عبد الرحمن

لائبریرین
خیبر بازار کے طرفین میں واقع سینکڑوں دکانوں کے بیچوں بیچ سالوں پرانا ایک ٹھیلہ آج چاروں طرف سے لوگوں کی بھیڑ سے گھرا ہوا تھا۔ وجہ اس ٹھیلے پر بکنے والے سموسوں کی لذت نہیں تھی وجہ کچھ اور تھی۔ اور اب اس عمل کے رد عمل کے تصور سے ہی اسے ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔

"غیرت" بھی کیا منافق چیز ہے! جہاں دکھانی ہوتی ہے وہاں یہ منہ چھپائے پھرتی ہے۔ اور جب اس پر دو حرف بھیجنے کا وقت آتا ہے وہاں یہ ہم سے ناحق کتنے سنگین الفاظ کہلوا دیتی ہیں، اور کبھی کبھی کوئی ایسا کام بھی کروادیتی ہے جس کا خمیازہ زندگی بھر بھگتنا پڑتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج صبح ریاست خان اپنی مظلوم بیوی اور سولہ سالہ معصوم بچی کو اسی "غیرت" نامی عفریت کے نام پر جانورں کی طرح پیٹ کر گھر سے نکلا تھا۔ ان "بے شرم" عورتوں کا مار کھانا تو بنتا ہی تھا، بات ہی کچھ ایسی کی تھی۔

اسکول کے نام پر گاؤں کی ایک وحشت ناک اور ہول ناک عمارت۔۔۔۔۔۔۔ جہاں کلاس روموں کے اندر وقت بے وقت جنگلی کتے آجاتے اور بے طرح بھونکتے۔ زنگ آلود پنکھے اتنے سست ہوگئے تھے کہ اپنے تین پروں کا بوجھ اٹھانا بھی ان کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔ خستہ دیواروں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کچھ دیر سہارا لینے کے لیے ان پر ٹیک لگانے والے شخص کو یہ ہمیشہ کے لیے بے سہارا کردیں گی۔

ایسے کھنڈر نما اسکول سے جیسے تیسے میٹرک کرنے کے بعد گل نے اپنے باپ سے اعلیٰ تعلیم کا شوق پورا کرنے کے لیے کالج پڑھنے کی فرمائش کی تھی۔

اس بے حیائی پر ریاست خان نے اپنی بچی کو جو مارا تو آسمان بھی بوندا باندی کی صورت میں روپڑا۔ ماں کو بھی بخشا نہیں گیا کیوں کہ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے کالج پڑھنے کی فرمائش اپنے باپ سے کرنے کو کہی۔ بچی تو نا سمجھ ہے مگر ماں تو نادان نہیں۔ جب ماں ہی بے غیرتی کا ثبوت دیتی پھرے تو ظاہر ہے وہ بھی سزا کی برابر مستحق ہے۔

ریاست خان کا غصہ یہیں پر ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں اور آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔ اسی خوانخوار حالت میں وہ خیبر بازار اپنے کپڑے کی دکان پر پہنچ گیا اور بند دکان کے شٹر سے ٹکی ایک سائیکل دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔

"یہ کس ۔۔۔۔۔ کا سئیکل ہے؟"

ایک موٹی گالی کے ساتھ جب ریاست خان نے سائیکل کے مالک کو ڈھونڈنا چاہا تو سامنے سے نحیف سا افضل حلوائی اپنی ریڑھی چھوڑ کر گھبراہٹ کے عالم میں ریاست خان کی طرف بھاگتا ہوا آیا اور ابھی یہ بتانا ہی چاہ رہا تھا کہ وہ کب سے اپنی سائیکل کو ڈھونڈ رہا تھا کسی نے مذاق میں اس کی سائیکل چھپادی تھی، ریاست خان نے جارحانہ انداز میں افضل حلوائی کو گریبان سے پکڑ کر زمین پر گرایا اور اس بے رحمی سے مکے مارے کہ وہ غریب آنا فانا دم توڑ گیا۔

جب تک آس پاس کی دکانوں کے لوگ پہنچے اور زبردستی ریاست خان کو کھینچ کر الگ کیا تب تک افضل حلوائی بہت دور جا چکا تھا۔ ریاست خان افضل حلوائی کو جان سے نہیں مارنا چاہتا تھا لیکن جب مجمع کی بدحواسی سے اس کو پتہ چلا کہ وہ بے جان ہو چکا ہے تو اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔

پولیس نے فوری طور پر ریاست خان کو حراست میں لے لیا۔ لیکن اصل فیصلہ تو جرگہ میں ہی ہونا تھا۔ گاؤں کے "معزز بزرگوں" کی سربراہی میں پنچائت بٹھائی گئی۔ افضل کے تینوں بھائی سخت طیش میں تھے اور قصاص سے کم پر کسی صورت راضی نہ تھے۔ بہت منت سماجت کے بعد انہیں دیت پر آمادہ کیا گیا۔

ریاست خان سے اس کی دکان افضل کے بھائیوں کے نام کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن وہ اس پر نہ مانا۔ بقول اس کے یہ دکان ہی اس کی روزی کا واحد ذریعہ تھی اگر اسے ہی دیت کردیا تو کمائے گا کہاں سے؟ جب دکان کے ذریعہ معاملہ نمٹ نہ سکا تو ریاست خان کی 400 گز کی زمین تینوں بھائیوں کے حوالے کرنے کو کہا گیا۔ اس فیصلے پر بھی ریاست سراپا احتجاج ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ زمین اس کے باپ کی نشانی ہے۔ اسے وہ کسی صورت خود سے الگ نہیں کرے گا۔

بالآخر ایک تیسرا فیصلہ کیا گیا جو کہ حتمی ثابت ہوا۔ اس پر بھی ریاست خان کو اگر اعتراض ہوتا تو اسے پولیس کے حوالے کردیا جاتا۔ لیکن اس نے اس حکم کو خوش دلی سے قبول کیا اور گاؤں کے معززین کی "انصاف پسندی" کی جی بھر کر کی تعریف کی۔

طے ہوا کہ ریاست خان کی 16 سال کی بیٹی گل، افضل کے دوسرے نمبر کے 45 سالہ بھائی امیر خان سے بیاہ دی جائے اور اس کی بیوی بھی بطور غلام ان کے گھر بھیج دی جائے۔

یوں ریاست خان اپنی کھوکھلی غیرت کی آڑ میں کیے گئے جرم کی پاداش میں چند ٹکے بچانے کی خاطر اپنی حقیقی غیرت کا سودا ہنسی خوشی کر آیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اللہ اکبر!

غیرت کس چڑیا کا نام ہے۔؟

بہت ہی سفاک حقیقت بہت خوبصورتی کے ساتھ عیاں کر دی ہے آپ نے۔

دو ڈھائی سال بعد تحریرآپ نے شاملِ محفل کی ہے اور ساری کسر نکال دی ہے۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
 

عبد الرحمن

لائبریرین
اللہ اکبر!

غیرت کس چڑیا کا نام ہے۔؟

بہت ہی سفاک حقیقت بہت خوبصورتی کے ساتھ عیاں کر دی ہے آپ نے۔

دو ڈھائی سال بعد تحریرآپ نے شاملِ محفل کی ہے اور ساری کسر نکال دی ہے۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
شکریہ برادر حوصلہ افزائی کے لیے۔

لکھتے وقت یوں لگ رہا تھا میں خود نہیں لکھ رہا مجھ سے کوئی لکھوا رہا ہے۔
 

مزمل اختر

محفلین
شکریہ برادر حوصلہ افزائی کے لیے۔

لکھتے وقت یوں لگ رہا تھا میں خود نہیں لکھ رہا مجھ سے کوئی لکھوا رہا ہے۔
کیا یہ آپ نے خود لکھا ہے ماشاءاللہ
بہت خوبصورت اللہ ہم سب کو اپنے اہل کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

عبد الرحمن

لائبریرین
کیا یہ آپ نے خود لکھا ہے ماشاءاللہ
پسندیدگی کے لیے بہت ممنون ہوں برادر، جی قلم میرے ہاتھ میں ہی تھا۔ چلا کوئی اور رہا تھا۔
بہت خوبصورت اللہ ہم سب کو اپنے اہل کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے آمین
آمین!
 
Top