غیر قانونی گیٹ وے ایکسچینج

غیر قانونی گیٹ وے ایکسچینج
غزن بہزاد | ٹیکنولوجی ٹاٴمز کی طرف سے "مضامین" جلد 04 شمارہ 33 میں پوسٹ کیا گیا

ٹیلیفون اور انٹرنیٹ عصر حاضر میں رابطے کے بہترین ذرائع تصور کئے جاتے ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک سے پاکستان کی جانیوالی ٹیلیفون کالز میں سے ۴۰ فیصد کالز غیر قانونی نیٹ ورک کے ذریعے صارفین کو موصول ہوتی ہیں۔ اس غیر قانونی مواصلاتی نظام کو ’’گرے ٹریفک‘‘ کہا جاتا ہے اور اس نوعیت کے نیٹ ورک چلانے والے ادارے حکومت کو کسی قسم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ وطن عزیز کی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ میں گھری ہوئی معیشت کو گرے ٹریفکنگ کی مد میں سالانہ ساڑھے پانچ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جبکہ بعض سرکاری افسران کا دعویٰ ہے کہ اس غیر قانونی دھندے میں لائسنس ہولڈرز بھی ملوث ہیں۔
کسی بھی موبائل فون نیٹ ورک کے آپریشن، مرمت یا آپٹمائزیشن کے عمل کے دوران بیشتر اوقات موبائل کالز کے ٹریفک میں اتار چڑھاؤ اور کمی بیشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ٹریفک ظاہر کرتا ہے کہ موبائل صارفین کی جانب سے نیٹ ورک کا کس قدر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب کوئی کال کنیکٹ ہوتی ہے اور اس کا جواب دیا جاتا ہے تو بلنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔
فون ٹریفک کو ’’ارلانگ‘‘ نامی یونٹ سے ناپا جاتا ہے، جو دراصل ڈنمارک کے ریاضی دان ایگنر کراروپ ارلانگ سے موسوم ہے۔ نیٹ ورک پر بڑھتے ہوئے ٹریفک کو ہمیشہ ایک اچھی پیشرفت تصور کیا جاتا ہے، جو اشارہ دیتا ہے کہ مزید صارفین نیٹ ورک کو استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔ بعض اوقات جب کوئی سیاسی جلسہ، صوفی بزرگ کا عرس یا صرف کوئی عام اجتماع ہو تو اس مقام پر موبائل ٹریفک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ موبائل آپریٹرز ایسے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے صارفین تک نیٹ ورک کی ہموار رسائی فراہم کرنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھاتے ہیں۔
کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی مخصوص علاقے میں موبائل ٹریفک کسی تقریب کے بغیر ہی بڑھ جاتی ہے، جس پر تفصیلی تحقیقات کے بعد انکشاف ہوتا ہے کہ اس مقام پر ٹریفک بڑھنے کے باوجود آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا۔ دیگر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ موبائل صارفین موبائل آپریٹر کا نیٹ ورک تو استعمال کر رہے ہیں لیکن مرکزی نیٹ ورک کو کامیابی سے بائے پاس کر کے، یعنی بلنگ اور راؤٹنگ کو چکمہ دے کر۔ یہ کام راؤٹرز، سوئچز اور ایکسچینجز کی مدد سے کیا جاتا ہے جو کہ جی ایس ایم سم کارڈز ڈالنے پر کالز کا روٹ تبدیل کر سکتے ہیں۔
سم کارڈز کے ذریعے موبائل کالز کو روٹ کرنے کا ایک روایتی طریقہ کال کو لینڈلائن سے موبائل یا پھر موبائل سے موبائل پر منتقل کردیتا ہے، جس سے خرچ میں نصف سے بھی زیادہ کمی آجاتی ہے۔ دنیا بھر میں جی ایس ایم گیٹ ویز مختلف حجم اور زبانوں میں دستیاب ہیں، زبانوں سے مراد ہے آئی ایس ڈی این ای یا آئی ایس ڈی این ای ۲، پی آر آئی، اینا لوگ اور وی او آئی پی بشمول ایچ ۳۲۳ اور ایس آئی پی، جن کا انتخاب اسے استعمال کرنیوالے کی ضرورت پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام ۲ افراد کی کمپنی کے لئے ایسے اینالوگ ڈیوائس کی ضرورت ہوگی جسے اینالوگ لائن، جیسا کہ گھر کے فون وغیرہ سے منسلک کیا جاسکے گا۔
بلاشبہ یہ ایک کام غیر قانونی ہے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ایسے اقدامات اٹھانے والوں کی تلاش اور ان کے کام کو بند کرنے کے لئے بہت متحرک رہی ہے۔ غیر قانونی جی ایس ایم گیٹ ویز پر ایسے چھاپوں کے انتظامات این آر تھری سی کی جانب سے کئے جاتے ہیں جبکہ این آر تھری سی اور پی ٹی اے اب تک مشترکہ طور پر ۹ غیر قانونی جی ایس ایم گیٹ ویز پر چھاپے مار کر آلات قبضے میں لے چکے ہیں، البتہ ہمارے یہاں میں غیر قانونی موبائل ٹریفک کے حجم کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کامیابی اس کے عشر عشیر بھی نہیں۔
بین الاقوامی سطح پر اس معاملے سے نمٹنے کے لئے عالمی سیلولر کمیونٹی نے مل کر جی ایس ایم اے فراڈ فورم تخلیق کیا ہے۔ سی ایف سی اے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سالانہ تقریباً ۱ء۴۰ ارب امریکی ڈالرز ایسے فراڈز کے باعث ہاتھوں ضائع ہو جاتے ہیں۔ غیر قانونی گیٹ وے کے خلاف قدم نہ اٹھانے والے سیلولر آپریٹرز نہ صرف مسلسل اور حتمی طور پر اپنی آمدنی گنوا رہے ہیں بلکہ یہ سست روی صارفین کو بھی منفی طور پر متاثر کر رہی ہے۔
سیلولر آپریٹرز غیر قانونی جی ایس ایم گیٹ وے کے خلاف کوئی قدم اٹھانے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟ اس بارے میں جی ایس ایم اے فورم کا کہنا ہے کہ سب سے اہم عنصر کئی موبائل آپریٹرز کی فراڈ اور اس کی زد میں آنے کی اہمیت سے عدم آگہی ہے، جو ایسے غیر قانونی افراد کی موجودگی کا سب سے اہم سبب ہے۔ بہت سے سیلولر آپریٹرز اس بات کو ماننا ہی نہیں چاہتے کہ ان کے نیٹ ورک کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، جبکہ یہ مفروضہ ان کی مکمل غفلت اور موبائل فراڈ کی صورتحال کے بارے میں بہتر سوجھ بوجھ کی ضرورت کو ظاہر کررہی ہے۔
ماہرین کے مطابق غیر قانونی گیٹ وے ایکسچینج عموماً وہاں پائے جاتے ہیں جہاں مقامی اور بین الاقوامی کال نرخوں میں واضع فرق موجود ہو، جبکہ دنیا کے متعدد ممالک میں مقامی اور بین الاقوامی کال نرخوں میں اتنا فرق نہیں کہ غیر قانونی جی ایس ایم گیٹ وے ایکسچینج کرنے والے کوئی فائدہ اٹھا سکیں۔ ایسے ممالک میں سنگاپور اور امریکہ سرفہرست ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی ٹیلی فون ایکسچینجز کے ذریعے مواصلاتی رابطے کی روک تھام کے لئے جلد ہی مؤثر نگرانی کا جدید نظام ’’انٹرنیشنل کلیئرنگ ہاؤس‘‘ متعارف کروادیا جائیگا، جس کے نتیجہ میں حکومت کو سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر آمدنی حاصل ہو سکے گی۔
غیر قانونی گیٹ وے ایکسچینج | ٹیکنولوجی ٹاءمز
 
غیر قانونی گیٹ وے,ایکسچینج سے خزانے کو 6ارب کا نقصان ،ایف آئی اے کے افسر بھی ملوث
28 اپریل 2014

لاہور(زاہد علی خان) وزیر داخلہ نے ملک کے چاروں صوبوں میں چلنے والی غیر قانونی گیٹ و ے ایکسچینج کے خلاف سخت کارراوئی کا حکم دیا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر چلائی جانے والے اس سسٹم نے گزشتہ سال قومی خزانے کوچھ ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کاسائبر کرائم کا شعبہ کے بعض افسران بھی اس میں ملوث پائے گئے ہیں مگر سابق حکومت نے صرف 19 افسران کو معطل کیا مگر بعدازاں یہ لوگ بھی بااثر ہونے کی وجہ سے بحال ہوگئے ۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر داخلہ نے ڈی جی ایف آئی اے غالب بندیشہ کو ہدایت کی ہے کہ سائبر کرائم ونگ کو مزید مضبوط اور موثر بنایا جائے اور اس کے قوانین سخت بنائے جائے اور ایسے بااثر افراد کو گرفتار کیاجائے جو ملکی خزانے کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں ایف آئی اے کہ ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اس حوالے سے ایک مضبوط ونگ بنادیا گیا ہے جو ایسے بااثر افراد کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرے گا۔
 
پی ٹی اے نے اس سلسلے میں ایک ہفتے کے ساتو ں دن 24 گھنٹے دستیاب شکایات مرکز قائم کیا ہے جس میں شکایات کنندگان ای میل complaint@pta.gov.pk، ٹال فری نمبر (080055055)، فیکس (051 2878127) اور فری ایس ایم ایس (8866) کے ذریعے ایسے نمبروں کی شکایات درج کرواسکتے ہیں جو بیرون ملک سے آنے والی کال کے دوران لوکل نمبر کے طور پر ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔
 
آج میں نے پانچ بار پاکستان کال کی ہے تو پاکستان میں موبائل سیٹ پر مندرجہ ذیل ۵ نمبر ظاہر ہوئے ہیں
پہلی کال -03362391319
دوسری کال-03352867729
تیسری کال-03352867729
چوتھی کال-03362314773
پانچویں کال-03331644856
میں نےشکایات کنندگان ای میل complaint@pta.gov.pk، پر اپنی شکایت درج کروا دی ہے
اگر آپ بھی بیرون ملک سے پاکستان کال کریں اور پاکستان میں اپ کے نمبر کی بجائے پاکستانی نمبر ظاہر ہو تو رپوٹ کر دیں
اس بات کا بہت امکان ہے کہ متعلقہ حکام ہی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہوں لیکن پھر بھی شکایت درج کرنا ضروری ہے (میرے خیال میں )
 
آئی سی ایچ ختم کرنیکا فیصلہ، گرے ٹریفک کاناسورختم ہوگا:انوشہ رحمن

اسلام آباد: وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن نے کہا کہ حکومت نے آئی سی ایچ سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی خطیر رقم کے بجائے ملک و قوم کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی سی ایچ ختم کرنے کا جراتمندانہ فیصلہ کیا ہے جس سے گرے ٹریفک کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز یہاں سے جاری کردہ اپنے پالیسی بیان میں کیا۔ اعلامیے کے مطابق وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن نے حکومت کے اس فیصلے سے حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آئی سی ایچ ختم کرنے سے نہ صرف گرے ٹریفک کا ناسور ختم ہوگا بلکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو کال چھ سے آٹھ روپے سستی پڑے گی اور ٹیلی کام سیکٹر میں صحت مندانہ مقابلے کی فضا قائم ہوگی۔
انوشہ رحمٰن نے کہا کہ حکومت نے آئی سی ایچ سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی خطیر رقم کے بجائے ملک و قوم کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی سی ایچ ختم کرنے کا جراتمندانہ فیصلہ کیا ہے جس سے گرے ٹریفک کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر مملکت نے واضح کیا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پی ٹی اے کی یہ کوشش تھی کہ ٹیلی کام سیکٹر کو تمام جرائم سے پاک کیا جائے جو پچھلی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے سبب پنپتے رہے۔ تھری جی، فور جی کی نیلامی کے بعد وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلیے دوسرا بڑا چیلنج گرے ٹریفک پر قابو پانا تھا، ہم نے اس چیلنج کو قبول کیا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جدید اسپیکٹرم کی شفاف اور کامیاب نیلامی کے بعد وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ڈی ریگولیشن پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلی کام سے وابستہ سروس پرووائیڈرز کی حوصلہ افزائی اور ان کے مابین مسابقت کو فروغ دینے کیلیے ٹیلی کام سیکٹر میں ایک اہم اور بڑی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک ڈائریکٹو کے ذریعے پی ٹی اے کو پاکستان میں ٹرمینیٹ ہونے والی بیرونی ٹریفک میں قبل ازیں نافذ انٹرنیشنل کلیئرنگ ہاو¿س ڈیوٹی ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کا اطلاق یکم اگست 2014 سے ہوگا۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے قبل ازیں تیرہ اگست 2012 کو بین الاقوامی ٹیلی کام ٹریفک کی پاکستان میں ترسیل کیلیے آئی سی ایچ پالیسی کا اجرا کیا تھا۔ اس آئی سی ایچ پالیسی کا مقصد پاکستان میں آنے والی بین الاقوامی ٹریفک کو آئی سی ایچ کنسوریشم کے تحت صرف ایک گیٹ وے سے گزارا جائے اور وہ واحد گیٹ وے ایل ڈی آئی کا سربراہ ہونے کے ناطے، پی ٹی سی ایل تھا تاہم یہ پالیسی اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہی کیونکہ اس سے بیرون ملک سے پاکستان آنے والی کالز کے ریٹ میں بے پناہ اضافہ ہوگیا اور غیر قانونی وائس ٹریفک کی شرح بھی کافی حد تک بڑھ گئی۔
بیرونی کالز کے ریٹس میں اس اضافے سے تارکین وطن پاکستانیوں کو شدید مشکلات کا سامانا کرنا پڑا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں قانونی طریقے سے آنے والی کالز کا حجم بھی کم ہونا شروع ہوگیا اور غیر قانونی کالز ،گرے ٹریفک کا رحجان بڑھنے لگا ہے اگرچہ 2003 کی ڈی ریگولیشن پالیسی کی نسبت آئی سی ایچ کے ذریعے یونیورسل سروس فنڈ میں اے پی سی کے حجم میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن حکومت نے دلیرانہ اقدام کے ذریعے اس ٹیکس سے حاصل ہونے والی خطیر رقم کو پس پشت ڈالتے ہوئے آئی سی ایچ کے خاتمے کا فیصلہ کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ پاکستان فون کرو تو آگے سے ٹیپ چل رہی ہوتی ہے کہ آپ کا بیلنس کال ملانے کے لیے ناکافی ہے جبکہ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
 
بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ پاکستان فون کرو تو آگے سے ٹیپ چل رہی ہوتی ہے کہ آپ کا بیلنس کال ملانے کے لیے ناکافی ہے جبکہ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔

لگ رہا ہے اپ بھی موبائلی استعمال کرتے ہیں۔
پھر اس کی کوالٹی بھی خراب ہوتی ہے۔
 
کراچی میں 150 سے زائد غیر قانونی ٹیلی کوم کمپنیز (الیگل انٹرنیشنل وائس کیریئرز) کے طور پر کام کر رہی ہیں جس سے بیرون ملک سے آنے والی لاکھوں کالز (کالز ٹریفک) سے ملنے والے ٹیکس کی مد میں حکومت پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے جبکہ ملک میں ایسی کمپنیز کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی موثر قانون موجود نہیں، ان انکشافات کے بعد جنوری 2012ء میں پی ٹی اے نے ایسی تمام کمپنیز کے لیے انٹرکونیکٹ لائسنس لازمی قرار دے دیا تاکہ ان کمپنیز کے حاصل شدہ بزنس سے ٹیکس وصول کیا جاسکے، ایسی غیر قانونی کمپنیز موبائل کمیونی کیشن، کمپیوٹر ٹیکنولوجی، کمپیوٹر اسیسریز کی آڑ میں کام کر رہی ہیں جن کے دفاتر شہر کے پوش علاقوں کے بنگلوں میں قائم ہیں۔
غیر قانونی وائس ٹریفک کے حوالے سے یہاں بتاتے چلیں کہ اگر کوئی شحص بیرون ملک سے کال کرتا ہے تو کال وصول کرنے والے کے موبائل اسکرین پر غیر ملکی کوڈ دکھائی دے گا ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب کال پاکستان آتی ہے تووہ حکومت کے گیٹ وے سسٹم سے 3 برقیاتی دروازوں سے گزر کر داخل ہوتی ہے اور یہ کالز ان گیٹ ویز میں جیسے ہی داخل ہوتی ہیں تو مونیٹرنگ سسٹم ان پر لگنے والا ٹیکس وصول کر لیتا ہے، جبکہ غیر قانونی انٹرنیشنل وائس کیئریر کمپنیز ان کالز کو حکومتی گیٹ وے تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی گرفت میں لے کر انٹرنیٹ کے ذریعے مقامی موبائل کمپنیز کو منتقل کر دیتی ہیں، جس سے کال موصول کرنے والے کو اپنی اسکرین پر انٹرنیشنل کوڈ کی جگہ لوکل کوڈ نظر آئیگا۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ان غیر قانونی کمپنیز کے خلاف کارروائی کیلئے پی ٹی اے کو ان کا اسٹیٹس معلوم کرنے کے لیے سفارشات بھجی گئیں تاہم اس سلسلے میں پی ٹی اے نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
http://www.technologytimes.pk/english-news.php?title=آن لائن فروڈ
 
Top