گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
میرے اسکول اور کالج میں ہر طرح کا اسلامی تہوار بڑے اہتمام سے منایا جاتا تھا۔ چاہے وہ عید میلاد النبی ﷺ ہو چاہے عید ملن پارٹی ہو۔ رمضان کے دوران ہمارے مسیحی اساتذہ اور شاگرد پوری طرح احتیاط کرتے تھے کہ ہمارے سامنے کچھ کھایا پیا نہ جائے اور اس میں اسکول کے سسٹر اور فادر بھی شامل ہوتے تھے۔ جب عید آتی تھی تو بڑے جوش و خروش سے سب اساتذہ پورا انتظام کرواتے اور بڑی خوشی خوشی ہمیں مبارکباد بھی دیتے اور پارٹی میں شریک بھی ہوتے۔ اس کے علاوہ فادر اور سسٹر کی طرف سے پھولوں کے گلدستے وغیرہ بھی اساتذہ کے لئے بھجوائے جاتے تھے اور مسلم اساتذہ کے لئے ایک الگ پارٹی کا انتظام کیا جاتا تھا۔
میلاد کے لئے سب سے بڑا انتظام ہوتا تھا۔ ٹینٹ لگتا تھا اور ہم سب کو مٹھائی بھی تقسیم کی جاتی تھی۔ اس کے لئے ہم سے کبھی ایک روپیہ بھی نہیں لیا گیا۔ میرے اسکول میں ڈھائی ہزار بچے پڑھتے ہیں۔ اب ذرا سوچئے کہ کتنا زیادہ خرچا آتا ہوگا۔ آخر میں فادر اور سسٹر سب کا شکریہ ادا کرتے اور سب کو مبارکباد بھی دیتے تھے۔ ہمیں کبھی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ قرآت کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔
رمضان شروع ہونے پر ہر مسیحی استاد اور شاگرد ہمیں الگ الگ رمضان کی مبارکباد دیتے۔ رمضان کے خیال سے ہمیشہ ہمارے اسکول کے اوقات کم کر دئیے جاتے تھے اور اس کے علاوہ خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا کہ ہمیں زیادہ ہوم ورک وغیرہ نہ دیا جائے۔ عید اور بقرعید پر ناصرف ہمیں بلکہ جو ماں باپ اسکول چھوڑنے لینے آتے تھے ان کو بھی مبارکباد دی جاتی تھی۔ ہمارے ماں باپ کو ہمیشہ سلام کرتے تھے۔
کسی ٹیچر یا اسٹوڈنٹ کا انتقال ہو جاتا تھا تو قرآن خوانی بھی ہوتی تھی۔ مرحومین کی یاد میں جو تقریب ہوتی تھی تو سب دعا میں شریک ہوتے تھے۔ مسیحی اساتذہ اپنے طریقے سے دعا کر دیتے تھے پھر کوئی مسلمان ٹیچر دعا کرتے تھے۔
اب ایسے میں ہم بھی انھیں کرسمس، نیو ائیر، ایسٹر اور فیسٹ ڈے پر وش کرتے تھے۔ کارڈ بھی بے انتہا بنا کر دئیے ہیں اور تحفے تحائف بھی دئیے ہیں۔
جب ہم عید پر اپنے مسلم ٹیچرز اور دوستوں کو کارڈ اور تحائف دیتے تھے تو ایسے میں اگر مسیحی تہواروں پر ہم ان سے دور رہتے تو ہم کس قسم کا ان کو پیغام دیتے؟ اب ہم کیا اپنے مسیحی کلاس فیلوز سے یہ کہتے کہ ہم سے زیادہ فری نہ ہو یا ہمیں اپنا دوست نہ بناوَ، ہمارے گھر آنا جانا تمھارا منع ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جہاں تک بات ایک ہی برتنوں میں کھانے پینے کی ہے تو سب کے لئے ایک ہی جیسے پانی کے فلٹر تھے۔ بہت سارے اسٹوڈنٹس گلاس میں پینے کے بجائے منہ لگا کر بھی پی لیتے تھے۔ کینٹین میں سب کے لئے ایک ہی جیسے پلیٹیں چمچے وغیرہ ہوتے تھے۔ پر ہم نے کبھی اللہ کا شکر ایسا نہیں سوچا نہ ہی میں نے کبھی کسی کو ایسے کرتے یا کہتے سنا۔ شائد کراچی میں ہم کانونٹ میں پڑھنے لکھنے والوں کا گھر کا ماحول اور سوچ مختلف ہے۔
مجھے یہ تھریڈ پڑھ کر کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔ ٹیچرز کے لئے بھی چائے اور لنچ وغیرہ کے ایک ہی برتن ہوتے تھے۔ ایک ٹیچر نے البتہ میری امی سے کہا تھا کہ وہ برتنوں میں احتیاط کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سوچنے پر بھی مجھے کوئی اور متعصبانہ رویہ یاد نہیں آیا۔
اب مجھے سمجھ نہیں آرہا جس طرح کی باتیں میں نے اس تھریڈ میں پڑھی ہیں کہ دوستی نہ کی جائے، دور رہا جائے وغیرہ وغیرہ اس پر بھلا میں کیا تبصرہ کروں۔ مجھے جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ میں دیکھوں گی کہ میری یاداشتیں پڑھنے سے آپ سب کی بھلا کیا رائے بنتی ہے۔
میں کوئی عالمہ نہیں ہوں اور دین کے معاملے میں میرا علم بہت کم ہے البتہ ایک بات میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ معاشرے کی اقدار وقت کے ساتھ بہت زیادہ بدل چکی ہیں۔ اب سے بیس سال پہلے میل جول کے الگ طور طریقے تھے اور اب کچھ اور ہیں۔ میرے بہت مسیحی دوست تھے اور مجھے اب بھی وہ یاد آتے ہیں۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہاں محفل پر میری آپ سب سے اچھی دعا سلام اور جان پہچان ہے اور میں آپ سب کو دوست احباب میں ہی شمار کرنا پسند کرتی ہوں۔
مجھے اب بھی اپنے مسیحی اساتذہ سے انسیت اور محبت محسوس ہوتی ہے جیسے بچپن میں ہوتی تھی کیونکہ انھوں نے ہم سب کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور آج میں جو کچھ بھی ہوں اس کا کریڈٹ ان سب کو جاتا ہے۔ مجھے اپنے مسیحی اسکول، کالج، اساتذہ اور دوستوں پر فخر ہے۔ یہ بہترین پاکستانی ہیں اور انھوں نے ہمارے معاشرے کو بے انتہا فائدہ پہنچایا ہے۔
کسی ایک طبقے کو معاشرتی طور پر آئیسولیٹ کرنا اب بے انتہا مشکل ہے اور دنیا بھر میں بے انتہا برا سمجھا جاتا ہے۔ جب ایک طبقہ ہمارے لئے اتنا کچھ کرے تو بدلے میں منطقی طور پر کچھ اچھا کرنا چاہئے۔ اس پر سوچنے اور گنجائش نکالنے کی انتہائی سخت ضرورت ہے۔