کاظمی بابا
محفلین
غیر مسلموں کو سلام کیسے کہنا چاہئے؟
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 17 June 2015 03:13 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہنسلو سے ایک بہن پوچھتی ہیں کہ غیرمسلموں کو مسلمانوں کی طرح السلام علیکم کہنا چاہئے یا اس کا کوئی دوسرا طریقہ ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیرمسلموں کو سلام کرنے میں اگر ابتداء کی جائے یا انہیں مخاطب کیا جائے تو السلام علیکم کےبجائے والسلام علی من اتبع الھدی کہنا چاہئے۔ حدیث میں بادشاہوں کے نام جو خطوط لکھے تھے ان میں انہی الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا تھا’والسلام علی من اتبع الھدی(بخاری کتاب یدء الوحی) یعنی سلامتی ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ قیصر و کسری اور جھوٹے نبی مسلیمہ کذاب کو جو خطوط آپ کی طرف سے بھیجے گئے۔ ان میں اسی طرح سلام لکھا گیا اس لئے یہی سنت قرار پائی کہ جب مسلمانوں سے ملوخط لکھویا مخاطب کرو تو السلام علیکم کہواور جب غیر مسلم سے اس طرز کا واسطہ پڑے تو انہیں السلام علی من اتبع الھدی کہو۔بعض اوقات غیرمسلم کی طرف سے سلام کی ابتدا کی جاتی ہے یا وہ مسلمان کو السلام علیکم کہتا ہے تو اس کے جواب میں بھی بجائے وعلیکم السلام کے صرف وعلیکم کہنا چاہئے۔حدیث میں آتا ہے حضورﷺ نے بعض غیر مسلموں کےسلا م کے جواب میں یہ الفاظ فرمائے ’ جس کا مطلب ہے ‘‘ اور تم ہو چیز ہو جس کے تم مستحق ہو’’درج ذیل احادیث سےمسئلے کی وضاحت مزید ہوجاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
لا تبدو ا الیهود والنصاری بالسلام۔ ( مسلم کتاب السلام باب النهی عن ابتدا ء اهل الکتاب بالسلام ۲۱۲۷/۱۳)
کہ یہود ونصاری کو السلام علیکم کہنے میں پہل نہ کرو اور اگر وہ کہہ دیں تو دوسری حدیث میں ہے
اذاسلم علیکم اهل الکتاب فقولوا وعلیکم۔ (بخاری کتاب الاستئذان باب کیف الرد علی اهل الذمة ۲۲۵۸۔ومسلم کتاب السلام باب النهی عن ابتداء اهل الکتاب بالسلام ۲۱۶۳/۶)
جب اہل کتاب میں سے تمہیں کوئی سلام کہے تو تم جواب میں صرف وعلیکم کہو۔
تیسری حدیث میں حضرت اسامہؓ روایت کرتےہیں کہ نبی ﷺ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان ’مشرک اور یہود مختلف مذاہب کےلوگ موجود تھے تووہاں نبی ﷺ نے السلام علیکم کہا۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلمان کسی مجلس میں جائے یا ان کو مشترکہ طور پر مخاطب کرےتو ایسے موقع پر جائز ہے کہ ان مسلمانوں کی وجہ سے جو اس اجتماع میں شریک ہیں’سب کو السلام علیکم کہاجائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
ص566
محدث فتویٰ
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 17 June 2015 03:13 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہنسلو سے ایک بہن پوچھتی ہیں کہ غیرمسلموں کو مسلمانوں کی طرح السلام علیکم کہنا چاہئے یا اس کا کوئی دوسرا طریقہ ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیرمسلموں کو سلام کرنے میں اگر ابتداء کی جائے یا انہیں مخاطب کیا جائے تو السلام علیکم کےبجائے والسلام علی من اتبع الھدی کہنا چاہئے۔ حدیث میں بادشاہوں کے نام جو خطوط لکھے تھے ان میں انہی الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا تھا’والسلام علی من اتبع الھدی(بخاری کتاب یدء الوحی) یعنی سلامتی ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ قیصر و کسری اور جھوٹے نبی مسلیمہ کذاب کو جو خطوط آپ کی طرف سے بھیجے گئے۔ ان میں اسی طرح سلام لکھا گیا اس لئے یہی سنت قرار پائی کہ جب مسلمانوں سے ملوخط لکھویا مخاطب کرو تو السلام علیکم کہواور جب غیر مسلم سے اس طرز کا واسطہ پڑے تو انہیں السلام علی من اتبع الھدی کہو۔بعض اوقات غیرمسلم کی طرف سے سلام کی ابتدا کی جاتی ہے یا وہ مسلمان کو السلام علیکم کہتا ہے تو اس کے جواب میں بھی بجائے وعلیکم السلام کے صرف وعلیکم کہنا چاہئے۔حدیث میں آتا ہے حضورﷺ نے بعض غیر مسلموں کےسلا م کے جواب میں یہ الفاظ فرمائے ’ جس کا مطلب ہے ‘‘ اور تم ہو چیز ہو جس کے تم مستحق ہو’’درج ذیل احادیث سےمسئلے کی وضاحت مزید ہوجاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
لا تبدو ا الیهود والنصاری بالسلام۔ ( مسلم کتاب السلام باب النهی عن ابتدا ء اهل الکتاب بالسلام ۲۱۲۷/۱۳)
کہ یہود ونصاری کو السلام علیکم کہنے میں پہل نہ کرو اور اگر وہ کہہ دیں تو دوسری حدیث میں ہے
اذاسلم علیکم اهل الکتاب فقولوا وعلیکم۔ (بخاری کتاب الاستئذان باب کیف الرد علی اهل الذمة ۲۲۵۸۔ومسلم کتاب السلام باب النهی عن ابتداء اهل الکتاب بالسلام ۲۱۶۳/۶)
جب اہل کتاب میں سے تمہیں کوئی سلام کہے تو تم جواب میں صرف وعلیکم کہو۔
تیسری حدیث میں حضرت اسامہؓ روایت کرتےہیں کہ نبی ﷺ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان ’مشرک اور یہود مختلف مذاہب کےلوگ موجود تھے تووہاں نبی ﷺ نے السلام علیکم کہا۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلمان کسی مجلس میں جائے یا ان کو مشترکہ طور پر مخاطب کرےتو ایسے موقع پر جائز ہے کہ ان مسلمانوں کی وجہ سے جو اس اجتماع میں شریک ہیں’سب کو السلام علیکم کہاجائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
ص566
محدث فتویٰ