فاروق درویش
معطل
غیر مسلم مورخین اور مسلم حکمران ایک تجزیہ
ہندوستان میں عام طور اسلام، مسلمان، قرآن، شریعت، پردہ، جہاد، دہشت گردی، جیسے اسلام اورمسلمانوں سے جڑے کئی عنوانات مستقل طور پر زیر بحث رہتے ہیں اور ان بحثوں میں زیادہ تر مباحث جو اسلام اور مسلمانوں سے متعصب ہوتی ہیں ، انہیں میڈیا میں بہترین مقام حاصل رہتا ہے۔ لیکن کئی ایسی حقیقتیں بھی ہیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کی سچائی ، حق پرستی کی گواہی دیتی نظر آتی ہے۔ کئی جرنلسٹ ماہرین و دانشوران ایسے بھی گزرے ہیں، جنہوں نے اس حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور مسلمان، ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ایک کلیدی رول رکھتے ہیں۔ ایسے حقیقت پسندانہ دانشوران میں ڈاکٹر شمبھو ناتھ پانڈے (1906-199

ڈاکٹر پانڈے نے ایک دفعہ اینگلو بنگالی کالج الہ آباد کی تاریخ کی کتاب کا مطالعہ کیا، جس کے مصنف ڈاکٹر ہرپرشاد شاستری، جو کلکتہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ سنسکرت تھے، اس کتاب میں ٹیپو سلطان (1750-1799) کے تعلق سے یہ لکھا گیا کہ ’’ٹیپو سلطان نے 3000برہمنوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ان تمام برہمنوں نے اجتماعی خود کشی کرلی‘‘۔ ایسا گھنونا الزام شیر میسور کے نام، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان قربان کردی، جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ذات پات کا فرق نہ کیا، جن کے کمناڈر ان چیف اور وزیراعظم برہمن تھے، جن کی سلطنت کے 136ہندومنادر کی فہرست آج بھی موجود ہے، جنہیں شاہی خزانے سے سالانہ امداد حاصل تھی۔
شاستری صاحب کی لکھی ہوئی زہر آلود کتاب کو آسام، بنگال،بہار، اڑیسہ ،اترپردیش اور راجستھان، مدھیہ پردیش میں ہائی اسکول کی سطح پر پڑھایا جارہا تھا، ڈاکٹر پانڈے کی جانب سے توجہ دلانے پر جناب اشوتوش چودھری وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی نے اس کتاب کو کورس سے خارج کردیا۔ لیکن ڈاکٹر پانڈے 1972 میں یہ دیکھ کر چونک اٹھے کہ برہمنوں کی خودکشی کی جھوٹی کہانی اترپردیش میں تحتانوی سطح پر مضمون تاریخ میں پڑھاکر معصوم ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہربھرا جارہا ہے۔
ایک اورحکمراں جن کاتعلق مغلیہ سلطنت سے ہے، جن کا نام اورنگ زیبؒ ہے، 1618 میں پیدا ہوئے، ان کی سلطنت 1658-1707 تک رہا۔ جن پر یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ ’’یہ ایک ظالم و جابر بادشاہ، غیر مسلموں سے تعصب رکھنے والے، بنیاد پرست و ظالم مسلم حکمراں تھے‘‘۔ ان سنگین غلط فہمیوں پر ڈاکٹر پانڈے نے تحقیق انجام دی۔ ڈاکٹر پانڈے 1948-1953 کے دوران بحیثیت میونسپل چیرمین الہ آباد بھی رہے، ان دنوں دو مندروں کے پجاریوں کے درمیان اراضی سے متعلق جھگڑا پیش آیا۔ جن میں سے ایک پجاری نے حقائق کے طور پر شاہی احکامات جو اورنگ زیبؒ کے دور میں جاری کیے تھے، پیش کیے۔ ڈاکٹر پانڈے ان شاہی احکامات کی صداقت کی جانچ کے لیے اپنے دوست سرتیج بہادر سپرو کو کہا، جو ایک قانون داں اور عربی و فارسی سے واقفیت رکھتے تھے، اور وہ ایک برہمن بھی تھے۔ سرتیج بہادر نے شاہی احکامات کے فرامین کی جانچ مکمل کی اورنتیجہ اخذ کیا کہ یہ اورنگ زیبؒ کی جانب سے جاری کردہ شاہی حکم ہے۔
ڈاکٹرپانڈے کے لیے اب اورنگ زیبؒ کی ایک نئی تصویراجاگر ہوئی۔ تب ہی انہوں نے ہندوستان کے مختلف اہم منادر کے پجاریوں کومکتوب لکھا کہ اورنگ زیبؒ کی جانب سے جاری کردہ شاہی احکاماتی فرامین اگر کہیں موجود ہوں تو تو ان احکامات کی نقلیں (Photo copy) براہ کرم انہیں روانہ کریں۔ جس کے بعد کئی ہندو منادر، جین منادر، سکھوں کے گرودواروں سے اورنگ زیبؒ کے شاہی احکاماتی فرامین کی نقلیں ڈاکٹرپانڈے کو موصول ہوئیں، جو 1659-1685 کے دور سے تعلق رکھتی تھیں، جن میں یہ تذکرہ تھا کہ شاہی خزانہ سے ان تمام منادر کے اخراجات کو پورا کیا جائے اور ترقیاتی کاموں میں پیشرفت کی جائے۔
سب سے سنگین الزام جو اورنگ زیبؒ پر لگایا جاتا ہے وہ وشوناتھ مندر کوڈھانے کے متعلق ہے، جس کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ جب اورنگ زیبؒ اپنے لشکر کو لے کر بنگال کی جانب وارانسی کے مقام سے گزر رہے تھے، وہاں کے ہندو راجاؤں نے آپؒ سے خواہش کی کہ ایک رات کے لیے وارانسی میں
اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈال لیں، تاکہ ان کی رانیاں گنگا میں غسل کی رسم کو پورا کر کے وشواناتھ مندر میں عبادت کرسکیں۔ اس التجا کو اورنگ زیبؒ نے قبول کرلی اور اپنے لشکر کو حفاظتی انتظامکے لیے وارانسی کے اطراف پانچ میل تک پھیلا دیا۔
تمام رانیاں پالکی میں پہنچ کر گنگا میں غسل کی ، رسم کو ادا کرنے کے بعد وشواناتھ مندر میں عبادت کر کے واپس لوٹ آئیں، سوائے کچھ ، مقام کی رانی کے۔ اورنگ زیبؒ کے اہم کارندے روانہ کیے گئے تاکہ رانی کو تلاش کیا جاسکے۔ تلاش کے دوران یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مندر میں موجود گنیش کا بت جو ایک حرکت کرنیو الی دیوار سے منسلک تھا، جس کے ہٹنے سے زیر زمین سیڑھیاں نظر آئیں، جس میں ’کچھ‘ کی مہارانی اپنے زیورات کو کھوکر بے عزت و پریشان حالت میں پائی گئیں۔ اس سازش میں وشواناتھ مندر کے تمام پجاری شامل تھے۔ راجاؤں کے مشورے پر اورنگ زیبؒ نے انہیں سزا متعین کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وشواناتھ مندر کو دوبارہ ، مسطح زمین سے بہتر تعمیر کی غرض سے ڈھادیا گیا، جس میں موجود بت کو منتقل کیا گیا، یہ فیصلہ اس لیے لیا گیا تاکہ مستقبل میں ایسی سازش کا کسی کو موقع نہ مل سکے۔
اب بتائیے کہ اورنگ زیبؒ ایک ظالم بادشاہ تھے یا ایک انصاف پسند اور امنپسند مسلم بادشاہ تھے۔ ایسے ہی کئی حقائق کا تذکرہ ڈاکٹر بی این پانڈے نے اپنی کتاب Islam & Indian Culture میں کرچکے ہیں، جس کے لیے ہم تمام ہندوستانی مشکور ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان کی ترقی کی راہ ہموار ہوی، اس کا اندازہ ہم ذیل کے اقوال سے لگاسکتے ہیں۔
مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابرنے ہندوستان کی تصویر جو ان کے آمد کے وقت تھی ’تزک بابری‘ میں اس طرح بیان کی ہے۔
’’ہندوستان میں اچھے گھوڑے نہیں! اچھا گوشت نہیں، انگور نہیں، خربوزہ نہیں، برف نہیں، حمام نہیں، مدرسہ نہیں، شمع نہیں، شمع دان نہیں، مشعل نہیں، باغوں اور عمارتوں میں آب رواں نہیں ، عمارتوں میں نہ صفائی ہے نہ موزونی، عام آدمی ننگے پاؤں ایک لنگوٹی لگائے پھرتے ہیں، عورتیں دھوتی باندھتی ہیں، جس کا آدھا حصہ کمر سیلپیٹ لیتی ہیں، اورآدھا سر پرڈال لیتی ہیں‘‘۔
ہندو تہذیب اور ہندو مذہب پر اسلام کے اثرات کا تدکرہ کرتے ہوئے مشہورفاضل مورخ ڈاکٹر کے ایم پانیکر (K.M Panikar) لکھتے ہیں کہ:
’’یہ بات توواضح ہے کہ اس عہد میں ہندو مذہب پر اسلام کا گہرا اثر پڑا، ہندوؤں پر خدا پرستی کا تصور اسلام ہی کی بدولت پیدا ہوا اور اس زمانے کے تمام ہندوپیشواؤں نے اپنے دیوتاؤں کا نام چاہے کچھ بھی رکھا ہو خدا پرستی ہی کی تعلیم دی، یعنی خدا ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے اور اسی کے ذریعہ ہم کو نجات مل سکتی ہے‘‘۔ (A Survey of Indian History)
پنڈت جواہر لال نہرو نے اسلامی اخوت و مساوات کے تحفہ کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے: ’’شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں اوراسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے، اس نے ان خرابیوں کو جو ہندو سماج میں پیدا ہوگئی تھیں یعنی ذاتوں کی تفریق، چھوت چھات اورانتہا درجہ کی خلوت پسندی کو بالکل آشکارا کردیا، اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندوؤں کے ذہن پر گہرا اثرڈالا، خصوصاً وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حقوق سے محروم تھے، اس سے بہت متاثر ہوئے (Discovery of India)
ہندوستان کے مشہورسیاح ڈاکٹر برنیر نے لکھا کہ ’’آج کل پہلے کہ بہ نسبت ستی کی تعداد کم ہوگئی ہے، کیونکہ مسلمان جو اس ملک کے فرمانرواں ہیں، اس وحشیانہ رسم کو نیست و نابود کرنے میں حتی لمقدور کوشش کرتے ہیں‘‘۔ڈاکٹر گسٹاولی بان اپنی کتاب ’’تمند ہند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے پہلے مروخ مسلمان تھے‘‘۔
سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے ایک رہنما ڈاکٹر پٹابی سیتا رمیہ نے بھی کانگریس کے اجلاس جے پورمیں اپنے خطبہ صدارت میں ان الفاظ سے کیا:
’’مسلمانوں نے ہمارے کلچر کومالامال کیا ہے اور ہمارے نظم و نسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا ہے، نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کامیاب ہوئے، اس ملک کے ادب اور اجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے‘‘۔
مشہورہندوستانی مورخ جادو ناتھ سرکار نے مسلمانوں کے عطیات کاتذکرہ کچھ اسطرح کیا’’مسلمانوں کی وجہ سے ہندوستان کا رابطہ خارجی دنیا سے ہوا۔ سیاسی اتحاد، لباس و تمدن کی یکسانی ، ایک مشترک سرکاری زبان اور نثر نگاری کا سادہ اسلوب، مرکزی حکومت کے تحت علاقائی زبانوں کی ترقی تاکہ امن و خوشحالی عام ہو، سمندری راستوں سے بین مملکتی تجارت کی تجدید، ہندوستان کے بحری بیڑہ کی تشکیل۔
ایک ہندوستانی فاضل جناب این ایس مہتا (N.S. Mehta) صاحب نے اپنے ایک انگریزی مضمون ’’ہندوستانی تہذیب اور اسلام‘‘ میں اسلام کے فیوض و احسانات کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا :
’’اسلام یہاں صرف ایک نورانی مشعل لایا تھا، جس نے زمانہ قدیم میں جب کہ پرانے تمدن انحطاط پذیر ہورہیتھے، اور پاکیزہ مقاصد محض ذہنی معتقدات بن کر رہ گئے تھے، انسانی زندگی کو چھائی ہوئی ظلمتوں سے پاک کردیا، دیگرممالک کی طرح ہندوستان میں بھی سیاست سے زیادہ خیالات کے دنیا میں اسلام کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے‘‘۔
ان تاریخی حقائق کے پیش نظر صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم ملک کو جس قدر فائدہ پہنچایا ہے وہ اس فائدہ سے بہت زیادہ ہے جو ہندوستان نے انہیں پہنچایا۔ مسلمانوں کی آمد اس ملک کی تاریخ میں ایک نئے دور ترقی و خوشحالی کا آغاز تھا، جسے ہندوستان کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
مضمون کے مواد کو انٹرنیٹ اورمولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب کی لکھی گئی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان ایک تاریخی جائزہ‘‘ سے لیا گیا ہے۔
( بشکریہ شیخ شجاعت علی، آندھراپردیش )