سید شہزاد ناصر
محفلین
’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ میں مولانا روم نے انسان کی آفرینش کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ؎
تُو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
یعنی اے انسان تو اس دنیا میں آپسی محبت پیدا کرنے آیا ہے نہ کہ ایک دوسرے سے دوری پیدا کرنے کے لئے تجھے بھیجا گیا ہے ۔ اس خوبصورت ، سہل اور پراثر شعر میں مولانا روم نے انسانی زندگی کا فلسفہ بیان کردیا ہے ۔ شعر کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ نثر کے مقابلے اس کی اثر پذیری بدرجہا زیادہ ہوتی ہے ۔ بعض اشعار تو اپنے اندر ایسی معنویت اور دلپذیری رکھتے ہیں کہ وہ زبان زد خاص وعام بن جاتے ہیں اور صدیوں ان اشعار کا ورد وقتاً فوقتاً لوگوں کی زبان پر ہوتا رہتا ہے ۔
اردو شاعری کی تاریخ میں سیکڑوں شعراء کے کلام میں ایسی تہہ داری ، گہرائی ، گیرائی اور آفاقی حقائق کی دنیا پویشدہ ہے کہ ان اشعار کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور یہ اشعار سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہزاروں دلوں کی زبان بن جاتے ہیں ، لیکن بعض اشعار اس طرح شہرت حاصل کرلیتے ہیں کہ ان کے خالق کے بارے میں جو روایت برسوں سے بیان کی جاتی ہے ، اسے ہی درست تصور کرلیا جاتا ہے ۔ حالانکہ بعض مشہور اشعار کے موزوں کرنے والے گمنام شعراء ہیں ، لیکن ان اشعار کو یا تو عقیدتاً کسی بڑے شاعر سے منسوب کردیا جاتا ہے ، یا شعر کی زبان ، اسلوب ، ہئیت اور لفظوں کے زیر و بم کے باعث اسے یا تو علامہ اقبال سے منسوب کردیا جاتا ہے یا میر ، غالب ، حالی ، انیس ، ذوق اور سودا وغیرہ سے اس کی نسبت درست تصور کی جاتی ہے ۔ ایسے متعدد اشعار ہیں جو گمنام شعراء کی تخلیقات ہیں ، لیکن انھیں مشہور شعراء کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ ایسے کئی اشعار دھڑلے سے سیاسی اور مذہبی تقریروں میں علامہ اقبال سے منسوب کرکے پیش کئے جاتے ہیں ، جن پر زوردار تالیاں بجتی ہیں ، لیکن وہ اشعار گمنامی کے اندھیروں میں گم کسی ایسے شاعر کے ہوتے ہیں جن سے عوام تو دور خواص بھی واقف نہیں ہوتے ہیں مثلاً یہ شعر ملاحظہ کیجئے ؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اس شعر کو عام طور پر اقبال کی تخلیقی ہنرمندی کا نتیجہ تصور کیا جاتا ہے ، جبکہ یہ شعرا اقبال کا نہیں ہے ۔ اگر مذکورہ شعر اقبال کا ہوتا تو اقبال کے کلیات میں ہونا چاہئے تھا ، مگر اس میں اس شعر کا ذکر نہیں ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ کہ اقبال نے اپنا پہلا شعری مجموعہ ’’بانگ درا‘‘ جب شائع کیا اور بہت سے اشعار حذف کردیئے تھے ، لیکن حذف کردہ اشعار کو مولوی احمد دین نے اپنی کتاب ’’اقبال‘‘ (جو اقبال کی شاعری پر پہلی تنقیدی کتاب ہے ۔ پہلی بار 1923 میں پاکستان سے چھپی تھی مگر شائع نہ ہوسکی) میں شامل کیا تھا ، اس میں بھی یہ شعر موجود نہیں ہے تو بھلا اس شعر کو اقبال سے کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ ’’برمحل اشعار اور ان کے مآخذ‘‘ کتاب کے مؤلف خلیق الزماں نصرت نے ’’حفیظ جونپوری حیات و شاعری‘‘ صفحہ 28 کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’یہ شعر شہیرؔ مچھلی شہری کا ہے‘‘ (صفحہ 112) شہیر مچھلی شہری 1856 میں جونپور میں پیدا ہوئے ۔ مچھلی شہر کے محلہ سیّد واڑہ میں ان کے آباء و اجداد نیشاپور سے آکر بس گئے تھے ۔ شہیر ، منیر شکوہ آبادی کے شاگرد تھے ۔ امیر مینائی شہیر کو نامور شعراء میں شمار کرتے تھے ۔ وہ حفیظ جونپوری کے معاصرین میں تھے ۔ 1935 میں ان کا ایک دیوان ’’خیابان ترنم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ ان کے شاگرد سروش مچھلی شہری نے اس دیوان کو شائع کیا ۔ 1929 میں شہیر کا انتقال ہوا ۔ طفیل احمد انصاری کے حوالے سے خلیق الزماں نصرت نے لکھا ہے کہ ’’16 فروری 1991 کو شہیر کا مذکورہ شعر ہفت روزہ بلٹز (بمبئی) کے آخری صفحے پر تصویر کے ساتھ شائع ہوا‘‘ ۔ (برمحل اشعار اور ان کے مآخذ ’’رضوی کتاب گھر‘‘ جامع مسجد دہلی ، 2012صفحہ 112)
ایک نہایت مشہور شعر جو اکثر و بیشتر خواندہ اور ناخواندہ افراد ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہیں اور خدا کی مشّیت کو ’’مرضیٔ مولی از ہمہ اولیٰ‘‘ کے مصداق قرار دیتے ہیں بلکہ ان کی دلی آواز یہ ہوتی ہے کہ دشمن چاہے جتنی بھی تدبیر اپنالے ، اگر خدا کی مرضی نہیں ہوگی ، تو کچھ بھی نہیں بگڑے گا اور ایسے ہی موقع پر درج ذیل شعر وہ نہایت اعتماد کے ساتھ پڑھتے ہیں ؎
مدّعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے ، جو منظورِ خدا ہوتا ہے
یہ شعر کس شاعر کا ہے ، عام طور پر اہل علم حضرات بھی اس سے بے خبر ہیں ۔ اترپردیش اردو اکادمی سے آغا محمد باقر کا مرتبہ ’’غزلیات برق‘‘ 1983 میں شائع ہوا ۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 82 پر مذکورہ شعر برق لکھنوی سے منسوب ہے ۔ خلیق الزماں نصرت کی تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ یہ شعر برق لکھنوی کا ہے ، جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’برمحل اشعار‘‘ میں صفحہ 57 پر کیا ہے ۔ برق لکھنوی کا نام مرزا محمد رضا خاں تھا ۔ وہ برق تخلص کیا کرتے تھے ۔ ان کے والد کا نام کاظم علی خاں تھا ۔ برق ناسخ کے شاگردوں میں تھے ۔ ان کا ایک دیوان ان کی حیات میں 1853 میں شائع ہوا ۔ 1857 میں کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔
لکھنؤ کے شعراء میں ثاقب لکھنوی کا نام نہایت اہمیت کاحامل ہے ۔ ان کی شاعری میں زندگی کی وہ تلخ حقیقتیں موجود ہیں ، جن کی وجہ سے ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ۔ میر اور غالب کی پیروی کرتے تھے ۔ ان کا مجموعۂ کلام ’’دیوانِ ثاقب‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ علاوہ ازیں غزل انسائیکلوپیڈیا (مرتبہ ذکی کاکوروی ، مرکز ادب لکھنؤ 1968 میں بھی ان کے کلام کا نمونہ موجود ہے ۔ ’’غزلیات ثاقب‘‘ کے عنوان سے بھی ان کے منتخب کلام شائع ہوچکے ہیں ۔ سید احتشام حسین نے ثاقب لکھنوی کے فن کے بارے میں لکھا ہے :۔
’’مرزا ذکر حسین ثاقب (1860-1946) بھی لکھنؤ کے مشہور شاعر تھے ۔ والد کی ملازمت کے سبب سے الہ آباد ، بھوپال اور آگرہ میں بھی رہے ، مگر زیادہ وقت لکھنؤ میں ہی گزرا ۔ شعر گوئی میں اس طرح محو ہوجاتے تھے کہ ادھر اُدھر کی خبر نہ رہتی تھی ۔ زیادہ تر غزلیں کہتے تھے اور میر و غالب کی پیروی کو ہی اپنے لئے فخر کی بات جانتے تھے ۔ ان کے کلام میں تھوڑا بہت لکھنؤ کا مصنوعی رنگ بھی ملتا ہے ۔ مگر بیشتر جذباتِ قلب کے اظہار سے ان کی شاعری کا اثر بڑھا ہوا ہے‘‘ (اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ، سید احتشام حسین ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی 1997 صفحہ 249)
ثاقب لکھنؤی کا ایک نہایت مشہور شعر جو مضمون نگار ، مقررین اور اہل ذوق حضرات اکثر و بیشتر استعمال میں لاتے ہیں ، لیکن انھیں اس کا علم نہیں کہ یہ شعر ثاقب لکھنوی کا ہے ۔ یہ شعر بھی ان ہی درجنوں اشعار میں سے ایک ہے جو پڑھا اور لکھا تو بہت جاتا ہے ، لیکن شاعر کے نام سے عام طور پر بے خبری پائی جاتی ہے ۔ ثاقب لکھنوی کا مشہور زمانہ شعر ملاحظہ کیجئے اور شاعر کے درد کو محسوس کیجئے ؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
(بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 249، سوانحی انسائیکلوپیڈیا جلد اول مرتبہ رضا الرحمن عاکف دہلوی صفحہ 200 ، برمحل اشعار اور ان کے مآخذ صفحہ 117)
ثاقب لکھنوی کے اشعار میں ضرب المثل بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے ۔ شعر گوئی میں محویت اور دنیا سے بے خبری کا ہی یہ عالم تھا کہ ثاقب لکھنوی کے متعدد اشعار ضرب المثل بن گئے جو انسانی درد کی مجسم تصویر بن کر ہمارے سامنے آئے ۔ ثاقب کے یہ دو اشعار بھی قارئین کی نذر ہیں جو ان کی فنکاری اور تجربات زندگی کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں ؎
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
(جدید غزل گو صفحہ 99)
مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
(جدید غزل گو صفحہ 99)
شکیب جلالی نے بھی ثاقب لکھنوی کی طرح نہایت خوبصورت اور اثر آفریں انداز میں اسی مفہوم کو اپنے ایک شعر میں یوں باندھا ہے ؎
اِک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیب
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
(کلیات شکیب جلالی ، دہلی 2007 صفحہ 35)
مولانا ظفر علی خان اپنی دھاردار طنزیہ صحافت کی وجہ سے تاریخِ صفحات میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ اخبار ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کے طور پر ان کی شہرت چہار دانگ عالم میں پھیلی ۔ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے ، لیکن ان کی شاعری کو شہرت حاصل نہ ہوسکی بلکہ ’’زمیندار‘‘ کے ایڈیٹر کے طورپر انھیں مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ظفر علی خان ایک شعلہ بیان مقرر بھی تھے اور ان کی تحریروں میں بھی یہی صفت پائی جاتی تھی ۔ وہ خلافت اور کانگریس کی تحریکوں کے قائد تھے ۔ ان کی تحریک کا اصل مقصد ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا تھا ۔ ان کی زندگی کا معتدبہ حصہ قید و بند میں گزرا ۔ 90 سال کی عمر میں ان کا انتقال 1986 میں ہوا ۔ ظفر علی خان کا ایک نہایت مشہور شعر ہے ، جسے عام طور پر کچھ لوگ اقبال اور بعض اہل علم حالی سے منسوب کرتے ہیں ، لیکن جس شعر کا یہاں ذکر مقصود ہے ، اس کے تخلیق کار مولانا ظفر علی خان ہیں اور وہ شعر ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(بحوالہ برمحل اشعار اور ان کے مآخذ صفحہ 118 )
ظفر علی خان کا ہی ایک اور شعر جو بہت زیادہ نقل کیا جاتا ہے اور خطباء اسے اپنی تقریروں کا حصہ بناتے ہیں وہ یہ ہے ؎
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
(ایضاً)
میر تقی میر اور امیر مینائی کے نام سے ایک شعر مدتوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے ، لیکن تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ نواب محمد یار خاں امیر ٹانڈوی کا ہے ۔ میر سے منسوب کرتے ہوئے اسے غلط طور پر کچھ اس طرح پڑھا جاتا رہا ہے
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
لیکن اصل شعر کی صورت کچھ اس طرح ہے اور یہی زیادہ درست اور مستند مانا گیا ہے
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
اس شعر کے متعلق ماہنامہ شاعر بمبئی شمارہ اگست 2009 ، صفحہ 33 پر مذکور ہے کہ یہ شعر نواب محمد یار خاں امیر کا ہے ۔ راز یزدانی نے ماہنامہ نیا دور لکھنؤ، جون 1962 کے شمارہ میں ایک مضمون بعنوان ’’نواب محمد یار خاں امیر‘‘ (صفحہ 5 تا 11) شائع کرایا تھا ، جس میں محمد یار خاں امیر کی شخصیت اور شاعری پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اپنے مضمون میں مذکورہ شعر کے حوالے سے راز یزدانی نے لکھا ہے :۔
’’ایک شعر اور پیش ہے
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
غلطی سے یہ شعر میرؔ سے منسوب کرکے اس طرح پڑھا جاتا ہے
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
لیکن حقیقت میں یہ شعر نہ میر تقی میر کا ہے نہ امیر مینائی کا (جیسا کہ کچھ اور حضرات کو شبہ ہوا ہے) بلکہ نواب محمد یار خاں امیر کا ہے‘‘ ۔
ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو تحقیق کے متقاضی ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان اشعار کو کن شعراء نے لکھا ہے ، حالانکہ وہ اشعار دوسرے شعراء سے منسوب کردیئے گئے ہیں ۔ اردو کے متعدد گمنام شعراء ایسے ہیں ، جن کے ایک یا دو اشعار اتنے مشہور ہوئے کہ وہ لوگوں کے حافظہ کا حصہ بن گئے ، لیکن لوگ ان اشعار کے اصل سخنور کے نام سے لاعلم ہیں ۔ان گمنام شعراء کے بعض اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں یا ان کے شعر کا کوئی ایک مصرع زبان زد خاص و عام ہوچکا ہے ۔ یہاں ایسے ہی چند اشعار اور شاعر کے نام پیش کئے جارہے ہیں ، جو شاعر سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں ؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(پنڈت مہتاب رائے تاباں) بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 29
جہاں ہم خشتِ خم رکھ دیں ، بِنائے کعبہ پڑتی ہے
جہاں ساغر پٹخ دیں ، چشمۂ زمزم نکلتا ہے
(ریاض خیرآبادی) بحوالہ سوانحی انسائیکلو پیڈیا صفحہ 312
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
(ظریف لکھنوی) بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 251
چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
(مرزا محمد علی فدوی) بحوالہ برمحل اشعار اور ان کے مآخذ صفحہ 30
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
(احمد حسین امیر اللہ تسلیم) بحوالہ جدید شاعری ،صفحہ 197
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشقِ دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کرلو تیر کو
(وزیر لکھنوی) بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 103
گمنام شعراء کے ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو شاعر سے زیادہ مشہور ہیں ، جن پر تفصیل سے لکھنے کی گنجائش بنتی ہے
اردو شاعری میں ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو بہت زیادہ مشہور ہیں لیکن ان اشعار کے اصل شاعر سے ہم لاعلم ہیں ۔ بہت سے مصرعے ایسے ہیں جو شہرت کے حامل ہیں ، لیکن صرف ایک مصرع ہی عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے اور دوسرا مصرع بیشتر افراد کے حافظے میں نہیں ہے ۔ مشہور اشعار کے گمنام یا کم معروف شعراء کی چھان بین محققین نے کی اور بہت سے اشعار کے خالق کا پتا لگایا ، تاہم ابھی بھی بہت سے اشعار محققین کی توجہ کے محتاج ہیں کہ انھیں کن شعراء سے منسوب کیا جائے ۔ اس سلسلے میں کافی تحقیق اور جستجو کے بعد قاضی عبدالودود نے سیکڑوں اشعار کے اصل شاعر کا پتا لگا کر ایک کتاب ’’آوارہ گرد اشعار‘‘ 1995 میں تحریر کی تھی ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طورپر شمس بدایونی کی کتاب ’’شعری ضرب الامثال‘‘ 1994 میں منظر عام پر آئی ۔ خلیق الزماں نصرت نے اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر ’’برمحل اشعار اور ان کے مآخذ‘‘ عنوان سے 2012 میں کتابی شکل میں (دوسری اشاعت) شائع کیا ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد کی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ 1982 میں منظر عام پر آئی ۔ مذکورہ کتابوں کے علاوہ افتخار امام صدیقی نے ایک مضمون ’’آوارہ گرد اشعار ، ضرب الامثال اشعار اور برمحل اشعار‘‘ عنوان کے تحت ایک مضمون ماہنامہ شاعر بمبئی اگست 2009 میں لکھا ۔ اسی شمارہ میں ’’مقدمہ شعری ضرب الامثال سے‘‘ کے موضوع پر شمس بدایونی نے اور خلیق الزماں نصرت نے ’’مشہور مصرعے ، اشعار اور ان کے شعراء اشعار کے تناظر میں‘‘ عنوان کے تحت مضامین تحریر کئے ، جن میں متعدد اشعار کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے تخلیق کار وہ نہیں ہیں ، جن سے انھیں منسوب کیا گیا ہے ۔ ان حضرات نے اصل شاعر کی کھوج کرکے مکمل اشعار تحریر کئے ہیں ۔ ایسے ہی محققین نے جن بہت ہی مشہور اشعار کے اصل شاعر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے ، ان میں سے چند اشعار کے حوالے سے یہاں بحث مقصود ہے ۔ ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ،جسے عام طور پر میر تقی میرؔ کا شعر تصور کیا جاتا ہے ، لیکن وہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے ، وہ شعر یوں ہے ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو فکرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
میر تقی میرؔ کے غزلوں کے چھ دیوان ہیں ، لیکن کسی دیوان میں بھی یہ شعر موجود نہیں ہے ۔ محققین نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی کا ہے ، جو رامپور کے رہنے والے تھے ۔ اس شعر کو بعض اصحاب مہاراجہ برقؔ سے بھی منسوب کرتے ہیں ، لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ ہفت روزہ ہماری زبان نئی دہلی 28 مارچ 2005 کے ایک مضمون کے حوالے سے خلیق الزماں نصرت نے مذکورہ شعر اور شاعر کے متعلق جو تحقیق کی ہے ، وہ اس طرح ہے :۔
’’الطاف الرحمن فکر یزدانی ، راز یزدانی رامپوری کے شاگرد تھے ۔ والد کا نام مولوی حبیب الرحمن تھا ۔ راز کہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں مذکورہ شعر کی غزل صاحبزادہ محمود علی خان رزمؔ کے دولت کدہ واقع راج دوارہ ، رامپور 1940 میں ایک مشاعرے میں سنایا تھا ،جس میں رامپور کے بزرگ شبیر علی خاں شکیب بھی موجود تھے ، جنہوں نے اس شعر کا ذکر اپنی کتاب ’’رامپور کا دبستان شاعری‘‘ مطبوعہ 1999 میں کیا ہے‘‘ ۔
(برمحل اشعار اور ان کے مآخذ ، خلیق الزماں نصرت ، رضوی کتاب گھر ، دہلی 2012 صفحہ 214) ۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ،دہلی ، اشاعت دوم 2012 کے صفحہ نمبر 85 پر یہ شعر درج کیا ہے اور شاعر کا نام میر الطاف الرحمن فکر یزدانی رامپوری ہی لکھا ہے ۔ الغرض یہ متحقق ہوچکا ہے کہ مذکورہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے ۔
نواب اعظم الدولہ میر محمد خاں بہادر سرور نے ’’تذکرۂ سرور‘‘ مطبوعہ 1941 میں اور نواب مصطفی خان شیفتہؔ نے ’’تذکرۂ گلشن بے خار‘‘ صفحہ 939 پر منّو لال صفاؔ لکھنوی کا ایک شعر نقل کیا ہے ،لیکن اس شعر کا مصرعۂ ثانی ہی زبان زد خاص و عام ہے ۔ صفا لکھنوی کا وہ مشہور زمانہ شعر یہ ہے:۔
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے دل آزاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
منّو لال صفاؔ لکھنوی ، مصحفی کے شاگرد تھے ۔ ان کے والد کا نام پورن چند تھا ۔ اخبار نویسی کے شغل سے وابستہ تھے ۔1870 میں ان کا وفات ہوا۔
آصف جاہ ششم میر محبوب علی خاں مختلف علوم و فنون پر مہارت رکھتے تھے ۔ آپ کو فارسی ، عربی ، اردو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا ۔ علوم مروجہ کے علاوہ فنون سپہ گری و شہ سواری کے ماہر کامل تھے ۔ آپ کے علم و فن اور شعر و سخن کی قدردانی کی وجہ سے تمام علماء و فضلائے عصر اور مشہور شعرائے عہد کا مجمع دارالسطنت حیدرآباد میں ہوگیا تھا ۔ سیکڑوں باکمال لکھنؤ ،دہلی اور دیگر مقامات سے شہر یار دکن کی فیاضیوں کا شہرہ سن کر حیدرآباد چلے آئے تھے ۔ میر محبوب علی خاں کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے اپنی کتاب ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں لکھا ہے :۔
’’میر محبوب علی خاں آصف تخلص فرماتے تھے اور اپنے استادوں کے متبع تھے ۔ دو دیوان یادگار ہیں ۔ کلام میں داغ کا رنگ ہے اور حسنِ الفاظ کے ساتھ حسنِ معنی بھی بہت کچھ جلوہ گر ہے ۔ نہایت سلیس ،فصیح اور بامحاورہ چٹ پٹا کلام ہوتا تھا اور حسن ظاہری کے ساتھ حسن باطنی بھی بدرجۂ اتم موجود ہے‘‘ (صفحہ 237) ۔
میر محبوب علی خاں آصف کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فیض کا شعر ہے ، لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اس شعر کو محبوب علی خاں آصفؔ نے لکھا اور یہ شعر ضرب المثل بن گیا ۔ آصف کہتے ہیں:۔
لاؤ تو قتل نامہ مِرا ، میَں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے ، سرِ محضر لگی ہوئی
اس شعر کا دوسرا مصرع مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر (ساہتیہ اکادمی ، نئی دہلی 1990 صفحہ 22) میں نقل کیا ہے ۔ مالک رام نے غبار خاطر مرتب کرتے ہوئے جو نہایت تحقیقی اور عالمانہ حواشی لکھے ہیں ۔ انھوں نے اس مصرع کے حوالے سے تخریجِ اشعار کا فریضہ ادا کرتے ہوئے جو تحقیق کی ہے ، اسے ملاحظہ کیجئے:۔
’’کہا جاتا ہے کہ یہ مصرع نظام ششم نواب محبوب علی خاں والیٔ حیدرآباد کا ہے ۔ 1900 کے لگ بھگ ریاست کے بعض اعلی افسروں نے ان کے خلاف کوئی سازش کی تھی ، اس موقع پر انھوں نے اطلاع ملنے پر متعلقہ کاغذات طلب کئے کہ دیکھیں، کن لوگوں نے اس سازش میں حصہ لیا ہے ، اور یہ مصرع کہا ۔ بعد کو اس پر پیش مصرع لگا کر شعر یوں پورا کیا۔
لاؤ تو قتل نامہ مِرا ، میَں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے ، سرِ محضر لگی ہوئی
(غبارِ خاطر صفحہ 296)
خلیق الزماں نصرت نے اپنے ایک مضمون ’’مشہور مصرعے ، اشعار اور ان کے شعراء‘‘ میں جو تفصیل پیش کی ہے ، اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ شعر محبوب علی خاں آصف کا ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ فیض احمد فیض کے مجموعۂ کلام میں یہ شعر کیسے شامل ہوگیا ۔ نصرت کی تحقیق ملاحظہ کیجئے جو انھوں نے مذکورہ شعر کے تعلق سے کی ہے:۔
’’میر محبوب علی خاں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے ۔ شاعری میں داغ کے شاگرد تھے ۔ داغ کو انہی کے دربار میں شہرت ملی تھی‘‘ ۔ ’’چراغ ہارمونیم‘‘ یا ’’گنجِ موسیقی‘‘ مصنفہ چراغ دین سیالکوٹی ، مطبوعہ ، 1924ء اس کتاب کے صفحہ 156 پر میر محبوب علی خاں آصف کی غزل میں مذکورہ شعر شامل ہے۔ ’’نو نہالِ ہند عرف جلوۂ خواجہ‘‘ یہ کتاب بھی بمبئی سے شائع ہوئی تھی ، میر محبوب علی خاں کی اس غزل میں بھی یہ شعر شامل ہے ۔ یہ دونوں کتابیں فیض سے قبل کی ہیں ، اس زمانے میں فیض طفل مکتب تھے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ فیض نے اپنے مجموعۂ کلام میں اس شعر کو کیونکر شامل کیا ۔ ایک مشہور ادیب اور صاحبِ قلم مرزا ظفر الحسن صاحب کی بات اس شعر کے تعلق سے بڑی اہم ہے ، وہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ امرائے حیدرآباد میں بھی کافی مشہور ہے ، جو ان کی گدّی نشینی کے واقعات میں اکثر لوگ اس شعر کا ذکر کرتے ہیں ، یہ بات اس شعر کے مآخذ کے لئے کافی ہے‘‘ (ماہنامہ شاعر بمبئی ، اگست 2009 صفحہ 30) ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے بھی اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ میں صفحہ نمبر 91 پر مذکورہ شعر نقل کیا ہے اور اسے نواب میر محبوب علی خاں آصف کا ہی شعر قرار دیا ہے ۔ اتنی تفصیل اس بات کے لئے کافی ہے کہ یہ شعر فیض کا نہیں بلکہ میر محبوب علی خاں آصف کا ہے ۔
محمد مستؔ کلکتوی کا ایک اور شعر بہت مشہور ہے ، لیکن عام طور پر لوگوں کو علم نہیں کہ یہ شعر مستؔ کلکتوی کا ہے ۔ انجم عظیم آبادی ، کلکتہ نے انور دہلوی کے تعلق سے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ماہنامہ انشاء کلکتہ کے شمارہ نومبر ، دسمبر 2014 کے صفحہ نمبر 5 پر ’’آپ کی ڈاک‘‘ کے تحت اپنے ایک خط میں بھی اس کا ذکر کیاہے ۔انھوں نے یہ لکھا ہے کہ ’’اس واقعے کے حوالے سے غلام محمد مستؔ کلکتوی کا یہ شعر یاد آگیا جو انور بارہ بنکوی پر صادق آتا ہے ؎
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
(مست کلکتوی)
ایسے نہ جانے کتنے اشعار جو لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں اور وہ برمحل ان اشعار کا استعمال کرتے ہیں ، لیکن وہ نہیں جانتے کہ اسے کس شاعر نے لکھا ہے ۔ چونکہ میرے مضمون کا عنوان ’’غیر معروف شعراء اور ان کے مشہور اشعار‘‘ ہے ، اس لئے یہاں صرف انہی اشعار کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، جن کے شاعر سے ہم لاعلم ہیں ، یا جنھیں شہرت نہیں ملی ، لیکن ان کے اشعار زیادہ مشہور ہوگئے ۔ ایسے سیکڑوں اشعار ہیں ، مگر یہاں ان تمام کا ذکر ممکن نہیں ، تاہم بعض اشعار اور ان کے شعراء سے قارئین کو متعارف کرانا مقصود ہے ۔ ایک شعر جسے عام طور پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن شاعر غیر معروف ہے اس لئے اہل علم اور صاحبِ ذوق کو اس سے واقفیت نہیں ہے ۔ تسکین کا ایک شعر ہے ؎
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخیِ نقشِ پا کی
تسکین کا نام میر حسین تھا ،وہ تسکین تخلص کرتے تھے ۔ شاہ نصیر سے اصلاح لی ۔ بعد میں مومن خاں مومن کے شاگرد ہوئے ۔ رامپور کے نواب محمد سعید خان ان کے مداحوں میں تھے ۔ تسکین انہی کے دربار میں ملازم تھے ۔ کتاب ’’دلی کا دبستان‘‘ صفحہ نمبر 42 پر یہ شعر نقل کیا گیا اور اسے تسکین سے منسوب کیا گیا ہے ۔
منشی میاں داد سیاح اورنگ آبادی 1817 میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام منشی عبداللہ خان تھا ۔ غالب کی شاگردی کا انھیں شرف حاصل ہوا ۔مرزا غالب نے سیاح کو سیف الحق کا خطاب دیا تھا ۔ خطوط غالب میں سیاح کے نام متعدد خطوط شامل ہیں ۔ سیاحؔ نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کی ، اسی وجہ سے غالب انھیں میاں سیّاح کے نام سے پکارتے تھے ۔ بعد میں سیّاح ان کا تخلص ہوگیا ۔ پروفیسر ظہیر احمد مدنی نے ان کا دیوان مرتب کرکے شائع کیا ۔ 90 سال کی عمر میں سورت (گجرات) میں ان کا انتقال ہوا ۔ دیوانِ سیاح ، مطبوعہ گجرات اردو ساہتیہ اکادمی گاندھی نگر ، گجرات 2004 میں ان کا یہ مشہور شعر درج ہے :۔
قیس صحراء میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
قربان علی سالک بیگ کا ایک نہایت مشہور شعر جسے غالب سے منسوب کردیا گیا ہے وہ شعر یہ ہے ؎
تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
مرزا قربان علی سالک کا یہ شعر ’’تلامذۂ غالب‘‘ کے صفحہ نمبر 141 پر درج ہے ۔ سالک 1825 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ لیکن بعد میں دلی چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ مومن کی شاگردی اختیار کی ، جب مومن کا انتقال ہوگیا تو سالک غالب کے شاگرد ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں غالب کا اثر پایا جاتا ہے ۔ مذکورہ شعر جسے غالب سے منسوب کیا گیا ہے ، غالب کے دیوان میں نہیں ہے ، محققین نے اسے سالک حیدرآبادی کا شعر قرار دیا ہے ۔ سالک 1879 میں حیدرآباد میں انتقال کرگئے ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے بھی اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ صفحہ نمبر 111 پر مذکورہ شعر نقل کیا ہے اور اس کے نیچے شاعر کا نام مرزا قربان علی بیگ سالک تحریر کیا ہے ۔ طوالت سے احتراز کرتے ہوئے یہاں چند اشعار اور ان کے تخلیق کاروں کے نام درج کئے جارہے ہیں ، جس سے ان زبان زد اشعار کے اصل شاعر کا نام قارئین کو معلوم ہوسکے ۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
حیرت الہ آبادی ( بحوالہ جواہر سخن صفحہ 546)
چاہت کا جب مزہ ہے کہ وہ بھی ہوں بیقرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
ظہیر دہلوی (بحوالہ دیوان ظہیر صفحہ 235)
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
ظہیر دہلوی (بحوالہ خمخانۂ جاوید صفحہ 486)
کہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
سعید احمد ناطق لکھنوی(بحوالہ جدید غزل گو صفحہ 247)
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
لالہ مادھورام جوہر فرخ آبادی (بحوالہ انتخاب کلام جوہر صفحہ 31)
نالۂ بلبلِ شیدا تو سنا ہنس ہنس کر
اب جگر تھام کے بیٹھو مِری باری آئی
لالہ مادھورام جوہر فرخ آبادی (بحوالہ انتخاب کلام جوہر صفحہ 53)
کیا خوب برق تو نے دکھایا ہے زورِ طبع
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
لالہ رام رکھا برق (بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 33)
چند تصویرِ بُتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے یہ گھر سے مرے ساماں نکلا
بزم اکبر آبادی (بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 33)
اب مجھ سے کاروبار کی حالت نہ پوچھئے
آئینہ بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
محمود سروش (بحوالہ متاع ہُنر صفحہ 216)
زبان زد اشعار ، ضرب المثل اشعار ، ضرب المثل مصرعے ، گمنام یا غیر معروف شعراء کے ہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ، لیکن ان کے متعلق تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شہرت نہیں ملی ورنہ ان کے اشعار مشہور اور بڑے شعراء کی صف میں انھیں کھڑا کرنے کے قابل ہیں ۔ اخبار کے ادبی صفحے میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ طویل مقالے شائع ہوسکیں ورنہ اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ، تاہم قارئین سیاست کی معلومات میں اضافے کے لئے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے
تُو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
یعنی اے انسان تو اس دنیا میں آپسی محبت پیدا کرنے آیا ہے نہ کہ ایک دوسرے سے دوری پیدا کرنے کے لئے تجھے بھیجا گیا ہے ۔ اس خوبصورت ، سہل اور پراثر شعر میں مولانا روم نے انسانی زندگی کا فلسفہ بیان کردیا ہے ۔ شعر کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ نثر کے مقابلے اس کی اثر پذیری بدرجہا زیادہ ہوتی ہے ۔ بعض اشعار تو اپنے اندر ایسی معنویت اور دلپذیری رکھتے ہیں کہ وہ زبان زد خاص وعام بن جاتے ہیں اور صدیوں ان اشعار کا ورد وقتاً فوقتاً لوگوں کی زبان پر ہوتا رہتا ہے ۔
اردو شاعری کی تاریخ میں سیکڑوں شعراء کے کلام میں ایسی تہہ داری ، گہرائی ، گیرائی اور آفاقی حقائق کی دنیا پویشدہ ہے کہ ان اشعار کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور یہ اشعار سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہزاروں دلوں کی زبان بن جاتے ہیں ، لیکن بعض اشعار اس طرح شہرت حاصل کرلیتے ہیں کہ ان کے خالق کے بارے میں جو روایت برسوں سے بیان کی جاتی ہے ، اسے ہی درست تصور کرلیا جاتا ہے ۔ حالانکہ بعض مشہور اشعار کے موزوں کرنے والے گمنام شعراء ہیں ، لیکن ان اشعار کو یا تو عقیدتاً کسی بڑے شاعر سے منسوب کردیا جاتا ہے ، یا شعر کی زبان ، اسلوب ، ہئیت اور لفظوں کے زیر و بم کے باعث اسے یا تو علامہ اقبال سے منسوب کردیا جاتا ہے یا میر ، غالب ، حالی ، انیس ، ذوق اور سودا وغیرہ سے اس کی نسبت درست تصور کی جاتی ہے ۔ ایسے متعدد اشعار ہیں جو گمنام شعراء کی تخلیقات ہیں ، لیکن انھیں مشہور شعراء کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ ایسے کئی اشعار دھڑلے سے سیاسی اور مذہبی تقریروں میں علامہ اقبال سے منسوب کرکے پیش کئے جاتے ہیں ، جن پر زوردار تالیاں بجتی ہیں ، لیکن وہ اشعار گمنامی کے اندھیروں میں گم کسی ایسے شاعر کے ہوتے ہیں جن سے عوام تو دور خواص بھی واقف نہیں ہوتے ہیں مثلاً یہ شعر ملاحظہ کیجئے ؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اس شعر کو عام طور پر اقبال کی تخلیقی ہنرمندی کا نتیجہ تصور کیا جاتا ہے ، جبکہ یہ شعرا اقبال کا نہیں ہے ۔ اگر مذکورہ شعر اقبال کا ہوتا تو اقبال کے کلیات میں ہونا چاہئے تھا ، مگر اس میں اس شعر کا ذکر نہیں ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ کہ اقبال نے اپنا پہلا شعری مجموعہ ’’بانگ درا‘‘ جب شائع کیا اور بہت سے اشعار حذف کردیئے تھے ، لیکن حذف کردہ اشعار کو مولوی احمد دین نے اپنی کتاب ’’اقبال‘‘ (جو اقبال کی شاعری پر پہلی تنقیدی کتاب ہے ۔ پہلی بار 1923 میں پاکستان سے چھپی تھی مگر شائع نہ ہوسکی) میں شامل کیا تھا ، اس میں بھی یہ شعر موجود نہیں ہے تو بھلا اس شعر کو اقبال سے کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ ’’برمحل اشعار اور ان کے مآخذ‘‘ کتاب کے مؤلف خلیق الزماں نصرت نے ’’حفیظ جونپوری حیات و شاعری‘‘ صفحہ 28 کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’یہ شعر شہیرؔ مچھلی شہری کا ہے‘‘ (صفحہ 112) شہیر مچھلی شہری 1856 میں جونپور میں پیدا ہوئے ۔ مچھلی شہر کے محلہ سیّد واڑہ میں ان کے آباء و اجداد نیشاپور سے آکر بس گئے تھے ۔ شہیر ، منیر شکوہ آبادی کے شاگرد تھے ۔ امیر مینائی شہیر کو نامور شعراء میں شمار کرتے تھے ۔ وہ حفیظ جونپوری کے معاصرین میں تھے ۔ 1935 میں ان کا ایک دیوان ’’خیابان ترنم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ ان کے شاگرد سروش مچھلی شہری نے اس دیوان کو شائع کیا ۔ 1929 میں شہیر کا انتقال ہوا ۔ طفیل احمد انصاری کے حوالے سے خلیق الزماں نصرت نے لکھا ہے کہ ’’16 فروری 1991 کو شہیر کا مذکورہ شعر ہفت روزہ بلٹز (بمبئی) کے آخری صفحے پر تصویر کے ساتھ شائع ہوا‘‘ ۔ (برمحل اشعار اور ان کے مآخذ ’’رضوی کتاب گھر‘‘ جامع مسجد دہلی ، 2012صفحہ 112)
ایک نہایت مشہور شعر جو اکثر و بیشتر خواندہ اور ناخواندہ افراد ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہیں اور خدا کی مشّیت کو ’’مرضیٔ مولی از ہمہ اولیٰ‘‘ کے مصداق قرار دیتے ہیں بلکہ ان کی دلی آواز یہ ہوتی ہے کہ دشمن چاہے جتنی بھی تدبیر اپنالے ، اگر خدا کی مرضی نہیں ہوگی ، تو کچھ بھی نہیں بگڑے گا اور ایسے ہی موقع پر درج ذیل شعر وہ نہایت اعتماد کے ساتھ پڑھتے ہیں ؎
مدّعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے ، جو منظورِ خدا ہوتا ہے
یہ شعر کس شاعر کا ہے ، عام طور پر اہل علم حضرات بھی اس سے بے خبر ہیں ۔ اترپردیش اردو اکادمی سے آغا محمد باقر کا مرتبہ ’’غزلیات برق‘‘ 1983 میں شائع ہوا ۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 82 پر مذکورہ شعر برق لکھنوی سے منسوب ہے ۔ خلیق الزماں نصرت کی تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ یہ شعر برق لکھنوی کا ہے ، جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’برمحل اشعار‘‘ میں صفحہ 57 پر کیا ہے ۔ برق لکھنوی کا نام مرزا محمد رضا خاں تھا ۔ وہ برق تخلص کیا کرتے تھے ۔ ان کے والد کا نام کاظم علی خاں تھا ۔ برق ناسخ کے شاگردوں میں تھے ۔ ان کا ایک دیوان ان کی حیات میں 1853 میں شائع ہوا ۔ 1857 میں کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔
لکھنؤ کے شعراء میں ثاقب لکھنوی کا نام نہایت اہمیت کاحامل ہے ۔ ان کی شاعری میں زندگی کی وہ تلخ حقیقتیں موجود ہیں ، جن کی وجہ سے ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ۔ میر اور غالب کی پیروی کرتے تھے ۔ ان کا مجموعۂ کلام ’’دیوانِ ثاقب‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ علاوہ ازیں غزل انسائیکلوپیڈیا (مرتبہ ذکی کاکوروی ، مرکز ادب لکھنؤ 1968 میں بھی ان کے کلام کا نمونہ موجود ہے ۔ ’’غزلیات ثاقب‘‘ کے عنوان سے بھی ان کے منتخب کلام شائع ہوچکے ہیں ۔ سید احتشام حسین نے ثاقب لکھنوی کے فن کے بارے میں لکھا ہے :۔
’’مرزا ذکر حسین ثاقب (1860-1946) بھی لکھنؤ کے مشہور شاعر تھے ۔ والد کی ملازمت کے سبب سے الہ آباد ، بھوپال اور آگرہ میں بھی رہے ، مگر زیادہ وقت لکھنؤ میں ہی گزرا ۔ شعر گوئی میں اس طرح محو ہوجاتے تھے کہ ادھر اُدھر کی خبر نہ رہتی تھی ۔ زیادہ تر غزلیں کہتے تھے اور میر و غالب کی پیروی کو ہی اپنے لئے فخر کی بات جانتے تھے ۔ ان کے کلام میں تھوڑا بہت لکھنؤ کا مصنوعی رنگ بھی ملتا ہے ۔ مگر بیشتر جذباتِ قلب کے اظہار سے ان کی شاعری کا اثر بڑھا ہوا ہے‘‘ (اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ، سید احتشام حسین ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی 1997 صفحہ 249)
ثاقب لکھنؤی کا ایک نہایت مشہور شعر جو مضمون نگار ، مقررین اور اہل ذوق حضرات اکثر و بیشتر استعمال میں لاتے ہیں ، لیکن انھیں اس کا علم نہیں کہ یہ شعر ثاقب لکھنوی کا ہے ۔ یہ شعر بھی ان ہی درجنوں اشعار میں سے ایک ہے جو پڑھا اور لکھا تو بہت جاتا ہے ، لیکن شاعر کے نام سے عام طور پر بے خبری پائی جاتی ہے ۔ ثاقب لکھنوی کا مشہور زمانہ شعر ملاحظہ کیجئے اور شاعر کے درد کو محسوس کیجئے ؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
(بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 249، سوانحی انسائیکلوپیڈیا جلد اول مرتبہ رضا الرحمن عاکف دہلوی صفحہ 200 ، برمحل اشعار اور ان کے مآخذ صفحہ 117)
ثاقب لکھنوی کے اشعار میں ضرب المثل بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے ۔ شعر گوئی میں محویت اور دنیا سے بے خبری کا ہی یہ عالم تھا کہ ثاقب لکھنوی کے متعدد اشعار ضرب المثل بن گئے جو انسانی درد کی مجسم تصویر بن کر ہمارے سامنے آئے ۔ ثاقب کے یہ دو اشعار بھی قارئین کی نذر ہیں جو ان کی فنکاری اور تجربات زندگی کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں ؎
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
(جدید غزل گو صفحہ 99)
مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
(جدید غزل گو صفحہ 99)
شکیب جلالی نے بھی ثاقب لکھنوی کی طرح نہایت خوبصورت اور اثر آفریں انداز میں اسی مفہوم کو اپنے ایک شعر میں یوں باندھا ہے ؎
اِک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیب
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
(کلیات شکیب جلالی ، دہلی 2007 صفحہ 35)
مولانا ظفر علی خان اپنی دھاردار طنزیہ صحافت کی وجہ سے تاریخِ صفحات میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ اخبار ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کے طور پر ان کی شہرت چہار دانگ عالم میں پھیلی ۔ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے ، لیکن ان کی شاعری کو شہرت حاصل نہ ہوسکی بلکہ ’’زمیندار‘‘ کے ایڈیٹر کے طورپر انھیں مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ظفر علی خان ایک شعلہ بیان مقرر بھی تھے اور ان کی تحریروں میں بھی یہی صفت پائی جاتی تھی ۔ وہ خلافت اور کانگریس کی تحریکوں کے قائد تھے ۔ ان کی تحریک کا اصل مقصد ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا تھا ۔ ان کی زندگی کا معتدبہ حصہ قید و بند میں گزرا ۔ 90 سال کی عمر میں ان کا انتقال 1986 میں ہوا ۔ ظفر علی خان کا ایک نہایت مشہور شعر ہے ، جسے عام طور پر کچھ لوگ اقبال اور بعض اہل علم حالی سے منسوب کرتے ہیں ، لیکن جس شعر کا یہاں ذکر مقصود ہے ، اس کے تخلیق کار مولانا ظفر علی خان ہیں اور وہ شعر ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(بحوالہ برمحل اشعار اور ان کے مآخذ صفحہ 118 )
ظفر علی خان کا ہی ایک اور شعر جو بہت زیادہ نقل کیا جاتا ہے اور خطباء اسے اپنی تقریروں کا حصہ بناتے ہیں وہ یہ ہے ؎
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
(ایضاً)
میر تقی میر اور امیر مینائی کے نام سے ایک شعر مدتوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے ، لیکن تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ نواب محمد یار خاں امیر ٹانڈوی کا ہے ۔ میر سے منسوب کرتے ہوئے اسے غلط طور پر کچھ اس طرح پڑھا جاتا رہا ہے
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
لیکن اصل شعر کی صورت کچھ اس طرح ہے اور یہی زیادہ درست اور مستند مانا گیا ہے
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
اس شعر کے متعلق ماہنامہ شاعر بمبئی شمارہ اگست 2009 ، صفحہ 33 پر مذکور ہے کہ یہ شعر نواب محمد یار خاں امیر کا ہے ۔ راز یزدانی نے ماہنامہ نیا دور لکھنؤ، جون 1962 کے شمارہ میں ایک مضمون بعنوان ’’نواب محمد یار خاں امیر‘‘ (صفحہ 5 تا 11) شائع کرایا تھا ، جس میں محمد یار خاں امیر کی شخصیت اور شاعری پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اپنے مضمون میں مذکورہ شعر کے حوالے سے راز یزدانی نے لکھا ہے :۔
’’ایک شعر اور پیش ہے
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
غلطی سے یہ شعر میرؔ سے منسوب کرکے اس طرح پڑھا جاتا ہے
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
لیکن حقیقت میں یہ شعر نہ میر تقی میر کا ہے نہ امیر مینائی کا (جیسا کہ کچھ اور حضرات کو شبہ ہوا ہے) بلکہ نواب محمد یار خاں امیر کا ہے‘‘ ۔
ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو تحقیق کے متقاضی ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان اشعار کو کن شعراء نے لکھا ہے ، حالانکہ وہ اشعار دوسرے شعراء سے منسوب کردیئے گئے ہیں ۔ اردو کے متعدد گمنام شعراء ایسے ہیں ، جن کے ایک یا دو اشعار اتنے مشہور ہوئے کہ وہ لوگوں کے حافظہ کا حصہ بن گئے ، لیکن لوگ ان اشعار کے اصل سخنور کے نام سے لاعلم ہیں ۔ان گمنام شعراء کے بعض اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں یا ان کے شعر کا کوئی ایک مصرع زبان زد خاص و عام ہوچکا ہے ۔ یہاں ایسے ہی چند اشعار اور شاعر کے نام پیش کئے جارہے ہیں ، جو شاعر سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں ؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(پنڈت مہتاب رائے تاباں) بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 29
جہاں ہم خشتِ خم رکھ دیں ، بِنائے کعبہ پڑتی ہے
جہاں ساغر پٹخ دیں ، چشمۂ زمزم نکلتا ہے
(ریاض خیرآبادی) بحوالہ سوانحی انسائیکلو پیڈیا صفحہ 312
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
(ظریف لکھنوی) بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 251
چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
(مرزا محمد علی فدوی) بحوالہ برمحل اشعار اور ان کے مآخذ صفحہ 30
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
(احمد حسین امیر اللہ تسلیم) بحوالہ جدید شاعری ،صفحہ 197
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشقِ دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کرلو تیر کو
(وزیر لکھنوی) بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 103
گمنام شعراء کے ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو شاعر سے زیادہ مشہور ہیں ، جن پر تفصیل سے لکھنے کی گنجائش بنتی ہے
اردو شاعری میں ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو بہت زیادہ مشہور ہیں لیکن ان اشعار کے اصل شاعر سے ہم لاعلم ہیں ۔ بہت سے مصرعے ایسے ہیں جو شہرت کے حامل ہیں ، لیکن صرف ایک مصرع ہی عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے اور دوسرا مصرع بیشتر افراد کے حافظے میں نہیں ہے ۔ مشہور اشعار کے گمنام یا کم معروف شعراء کی چھان بین محققین نے کی اور بہت سے اشعار کے خالق کا پتا لگایا ، تاہم ابھی بھی بہت سے اشعار محققین کی توجہ کے محتاج ہیں کہ انھیں کن شعراء سے منسوب کیا جائے ۔ اس سلسلے میں کافی تحقیق اور جستجو کے بعد قاضی عبدالودود نے سیکڑوں اشعار کے اصل شاعر کا پتا لگا کر ایک کتاب ’’آوارہ گرد اشعار‘‘ 1995 میں تحریر کی تھی ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طورپر شمس بدایونی کی کتاب ’’شعری ضرب الامثال‘‘ 1994 میں منظر عام پر آئی ۔ خلیق الزماں نصرت نے اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر ’’برمحل اشعار اور ان کے مآخذ‘‘ عنوان سے 2012 میں کتابی شکل میں (دوسری اشاعت) شائع کیا ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد کی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ 1982 میں منظر عام پر آئی ۔ مذکورہ کتابوں کے علاوہ افتخار امام صدیقی نے ایک مضمون ’’آوارہ گرد اشعار ، ضرب الامثال اشعار اور برمحل اشعار‘‘ عنوان کے تحت ایک مضمون ماہنامہ شاعر بمبئی اگست 2009 میں لکھا ۔ اسی شمارہ میں ’’مقدمہ شعری ضرب الامثال سے‘‘ کے موضوع پر شمس بدایونی نے اور خلیق الزماں نصرت نے ’’مشہور مصرعے ، اشعار اور ان کے شعراء اشعار کے تناظر میں‘‘ عنوان کے تحت مضامین تحریر کئے ، جن میں متعدد اشعار کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے تخلیق کار وہ نہیں ہیں ، جن سے انھیں منسوب کیا گیا ہے ۔ ان حضرات نے اصل شاعر کی کھوج کرکے مکمل اشعار تحریر کئے ہیں ۔ ایسے ہی محققین نے جن بہت ہی مشہور اشعار کے اصل شاعر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے ، ان میں سے چند اشعار کے حوالے سے یہاں بحث مقصود ہے ۔ ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ،جسے عام طور پر میر تقی میرؔ کا شعر تصور کیا جاتا ہے ، لیکن وہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے ، وہ شعر یوں ہے ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو فکرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
میر تقی میرؔ کے غزلوں کے چھ دیوان ہیں ، لیکن کسی دیوان میں بھی یہ شعر موجود نہیں ہے ۔ محققین نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی کا ہے ، جو رامپور کے رہنے والے تھے ۔ اس شعر کو بعض اصحاب مہاراجہ برقؔ سے بھی منسوب کرتے ہیں ، لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ ہفت روزہ ہماری زبان نئی دہلی 28 مارچ 2005 کے ایک مضمون کے حوالے سے خلیق الزماں نصرت نے مذکورہ شعر اور شاعر کے متعلق جو تحقیق کی ہے ، وہ اس طرح ہے :۔
’’الطاف الرحمن فکر یزدانی ، راز یزدانی رامپوری کے شاگرد تھے ۔ والد کا نام مولوی حبیب الرحمن تھا ۔ راز کہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں مذکورہ شعر کی غزل صاحبزادہ محمود علی خان رزمؔ کے دولت کدہ واقع راج دوارہ ، رامپور 1940 میں ایک مشاعرے میں سنایا تھا ،جس میں رامپور کے بزرگ شبیر علی خاں شکیب بھی موجود تھے ، جنہوں نے اس شعر کا ذکر اپنی کتاب ’’رامپور کا دبستان شاعری‘‘ مطبوعہ 1999 میں کیا ہے‘‘ ۔
(برمحل اشعار اور ان کے مآخذ ، خلیق الزماں نصرت ، رضوی کتاب گھر ، دہلی 2012 صفحہ 214) ۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ،دہلی ، اشاعت دوم 2012 کے صفحہ نمبر 85 پر یہ شعر درج کیا ہے اور شاعر کا نام میر الطاف الرحمن فکر یزدانی رامپوری ہی لکھا ہے ۔ الغرض یہ متحقق ہوچکا ہے کہ مذکورہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے ۔
نواب اعظم الدولہ میر محمد خاں بہادر سرور نے ’’تذکرۂ سرور‘‘ مطبوعہ 1941 میں اور نواب مصطفی خان شیفتہؔ نے ’’تذکرۂ گلشن بے خار‘‘ صفحہ 939 پر منّو لال صفاؔ لکھنوی کا ایک شعر نقل کیا ہے ،لیکن اس شعر کا مصرعۂ ثانی ہی زبان زد خاص و عام ہے ۔ صفا لکھنوی کا وہ مشہور زمانہ شعر یہ ہے:۔
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے دل آزاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
منّو لال صفاؔ لکھنوی ، مصحفی کے شاگرد تھے ۔ ان کے والد کا نام پورن چند تھا ۔ اخبار نویسی کے شغل سے وابستہ تھے ۔1870 میں ان کا وفات ہوا۔
آصف جاہ ششم میر محبوب علی خاں مختلف علوم و فنون پر مہارت رکھتے تھے ۔ آپ کو فارسی ، عربی ، اردو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا ۔ علوم مروجہ کے علاوہ فنون سپہ گری و شہ سواری کے ماہر کامل تھے ۔ آپ کے علم و فن اور شعر و سخن کی قدردانی کی وجہ سے تمام علماء و فضلائے عصر اور مشہور شعرائے عہد کا مجمع دارالسطنت حیدرآباد میں ہوگیا تھا ۔ سیکڑوں باکمال لکھنؤ ،دہلی اور دیگر مقامات سے شہر یار دکن کی فیاضیوں کا شہرہ سن کر حیدرآباد چلے آئے تھے ۔ میر محبوب علی خاں کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے اپنی کتاب ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں لکھا ہے :۔
’’میر محبوب علی خاں آصف تخلص فرماتے تھے اور اپنے استادوں کے متبع تھے ۔ دو دیوان یادگار ہیں ۔ کلام میں داغ کا رنگ ہے اور حسنِ الفاظ کے ساتھ حسنِ معنی بھی بہت کچھ جلوہ گر ہے ۔ نہایت سلیس ،فصیح اور بامحاورہ چٹ پٹا کلام ہوتا تھا اور حسن ظاہری کے ساتھ حسن باطنی بھی بدرجۂ اتم موجود ہے‘‘ (صفحہ 237) ۔
میر محبوب علی خاں آصف کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فیض کا شعر ہے ، لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اس شعر کو محبوب علی خاں آصفؔ نے لکھا اور یہ شعر ضرب المثل بن گیا ۔ آصف کہتے ہیں:۔
لاؤ تو قتل نامہ مِرا ، میَں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے ، سرِ محضر لگی ہوئی
اس شعر کا دوسرا مصرع مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر (ساہتیہ اکادمی ، نئی دہلی 1990 صفحہ 22) میں نقل کیا ہے ۔ مالک رام نے غبار خاطر مرتب کرتے ہوئے جو نہایت تحقیقی اور عالمانہ حواشی لکھے ہیں ۔ انھوں نے اس مصرع کے حوالے سے تخریجِ اشعار کا فریضہ ادا کرتے ہوئے جو تحقیق کی ہے ، اسے ملاحظہ کیجئے:۔
’’کہا جاتا ہے کہ یہ مصرع نظام ششم نواب محبوب علی خاں والیٔ حیدرآباد کا ہے ۔ 1900 کے لگ بھگ ریاست کے بعض اعلی افسروں نے ان کے خلاف کوئی سازش کی تھی ، اس موقع پر انھوں نے اطلاع ملنے پر متعلقہ کاغذات طلب کئے کہ دیکھیں، کن لوگوں نے اس سازش میں حصہ لیا ہے ، اور یہ مصرع کہا ۔ بعد کو اس پر پیش مصرع لگا کر شعر یوں پورا کیا۔
لاؤ تو قتل نامہ مِرا ، میَں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے ، سرِ محضر لگی ہوئی
(غبارِ خاطر صفحہ 296)
خلیق الزماں نصرت نے اپنے ایک مضمون ’’مشہور مصرعے ، اشعار اور ان کے شعراء‘‘ میں جو تفصیل پیش کی ہے ، اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ شعر محبوب علی خاں آصف کا ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ فیض احمد فیض کے مجموعۂ کلام میں یہ شعر کیسے شامل ہوگیا ۔ نصرت کی تحقیق ملاحظہ کیجئے جو انھوں نے مذکورہ شعر کے تعلق سے کی ہے:۔
’’میر محبوب علی خاں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے ۔ شاعری میں داغ کے شاگرد تھے ۔ داغ کو انہی کے دربار میں شہرت ملی تھی‘‘ ۔ ’’چراغ ہارمونیم‘‘ یا ’’گنجِ موسیقی‘‘ مصنفہ چراغ دین سیالکوٹی ، مطبوعہ ، 1924ء اس کتاب کے صفحہ 156 پر میر محبوب علی خاں آصف کی غزل میں مذکورہ شعر شامل ہے۔ ’’نو نہالِ ہند عرف جلوۂ خواجہ‘‘ یہ کتاب بھی بمبئی سے شائع ہوئی تھی ، میر محبوب علی خاں کی اس غزل میں بھی یہ شعر شامل ہے ۔ یہ دونوں کتابیں فیض سے قبل کی ہیں ، اس زمانے میں فیض طفل مکتب تھے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ فیض نے اپنے مجموعۂ کلام میں اس شعر کو کیونکر شامل کیا ۔ ایک مشہور ادیب اور صاحبِ قلم مرزا ظفر الحسن صاحب کی بات اس شعر کے تعلق سے بڑی اہم ہے ، وہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ امرائے حیدرآباد میں بھی کافی مشہور ہے ، جو ان کی گدّی نشینی کے واقعات میں اکثر لوگ اس شعر کا ذکر کرتے ہیں ، یہ بات اس شعر کے مآخذ کے لئے کافی ہے‘‘ (ماہنامہ شاعر بمبئی ، اگست 2009 صفحہ 30) ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے بھی اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ میں صفحہ نمبر 91 پر مذکورہ شعر نقل کیا ہے اور اسے نواب میر محبوب علی خاں آصف کا ہی شعر قرار دیا ہے ۔ اتنی تفصیل اس بات کے لئے کافی ہے کہ یہ شعر فیض کا نہیں بلکہ میر محبوب علی خاں آصف کا ہے ۔
محمد مستؔ کلکتوی کا ایک اور شعر بہت مشہور ہے ، لیکن عام طور پر لوگوں کو علم نہیں کہ یہ شعر مستؔ کلکتوی کا ہے ۔ انجم عظیم آبادی ، کلکتہ نے انور دہلوی کے تعلق سے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ماہنامہ انشاء کلکتہ کے شمارہ نومبر ، دسمبر 2014 کے صفحہ نمبر 5 پر ’’آپ کی ڈاک‘‘ کے تحت اپنے ایک خط میں بھی اس کا ذکر کیاہے ۔انھوں نے یہ لکھا ہے کہ ’’اس واقعے کے حوالے سے غلام محمد مستؔ کلکتوی کا یہ شعر یاد آگیا جو انور بارہ بنکوی پر صادق آتا ہے ؎
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
(مست کلکتوی)
ایسے نہ جانے کتنے اشعار جو لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں اور وہ برمحل ان اشعار کا استعمال کرتے ہیں ، لیکن وہ نہیں جانتے کہ اسے کس شاعر نے لکھا ہے ۔ چونکہ میرے مضمون کا عنوان ’’غیر معروف شعراء اور ان کے مشہور اشعار‘‘ ہے ، اس لئے یہاں صرف انہی اشعار کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، جن کے شاعر سے ہم لاعلم ہیں ، یا جنھیں شہرت نہیں ملی ، لیکن ان کے اشعار زیادہ مشہور ہوگئے ۔ ایسے سیکڑوں اشعار ہیں ، مگر یہاں ان تمام کا ذکر ممکن نہیں ، تاہم بعض اشعار اور ان کے شعراء سے قارئین کو متعارف کرانا مقصود ہے ۔ ایک شعر جسے عام طور پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن شاعر غیر معروف ہے اس لئے اہل علم اور صاحبِ ذوق کو اس سے واقفیت نہیں ہے ۔ تسکین کا ایک شعر ہے ؎
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخیِ نقشِ پا کی
تسکین کا نام میر حسین تھا ،وہ تسکین تخلص کرتے تھے ۔ شاہ نصیر سے اصلاح لی ۔ بعد میں مومن خاں مومن کے شاگرد ہوئے ۔ رامپور کے نواب محمد سعید خان ان کے مداحوں میں تھے ۔ تسکین انہی کے دربار میں ملازم تھے ۔ کتاب ’’دلی کا دبستان‘‘ صفحہ نمبر 42 پر یہ شعر نقل کیا گیا اور اسے تسکین سے منسوب کیا گیا ہے ۔
منشی میاں داد سیاح اورنگ آبادی 1817 میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام منشی عبداللہ خان تھا ۔ غالب کی شاگردی کا انھیں شرف حاصل ہوا ۔مرزا غالب نے سیاح کو سیف الحق کا خطاب دیا تھا ۔ خطوط غالب میں سیاح کے نام متعدد خطوط شامل ہیں ۔ سیاحؔ نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کی ، اسی وجہ سے غالب انھیں میاں سیّاح کے نام سے پکارتے تھے ۔ بعد میں سیّاح ان کا تخلص ہوگیا ۔ پروفیسر ظہیر احمد مدنی نے ان کا دیوان مرتب کرکے شائع کیا ۔ 90 سال کی عمر میں سورت (گجرات) میں ان کا انتقال ہوا ۔ دیوانِ سیاح ، مطبوعہ گجرات اردو ساہتیہ اکادمی گاندھی نگر ، گجرات 2004 میں ان کا یہ مشہور شعر درج ہے :۔
قیس صحراء میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
قربان علی سالک بیگ کا ایک نہایت مشہور شعر جسے غالب سے منسوب کردیا گیا ہے وہ شعر یہ ہے ؎
تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
مرزا قربان علی سالک کا یہ شعر ’’تلامذۂ غالب‘‘ کے صفحہ نمبر 141 پر درج ہے ۔ سالک 1825 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ لیکن بعد میں دلی چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ مومن کی شاگردی اختیار کی ، جب مومن کا انتقال ہوگیا تو سالک غالب کے شاگرد ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں غالب کا اثر پایا جاتا ہے ۔ مذکورہ شعر جسے غالب سے منسوب کیا گیا ہے ، غالب کے دیوان میں نہیں ہے ، محققین نے اسے سالک حیدرآبادی کا شعر قرار دیا ہے ۔ سالک 1879 میں حیدرآباد میں انتقال کرگئے ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے بھی اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ صفحہ نمبر 111 پر مذکورہ شعر نقل کیا ہے اور اس کے نیچے شاعر کا نام مرزا قربان علی بیگ سالک تحریر کیا ہے ۔ طوالت سے احتراز کرتے ہوئے یہاں چند اشعار اور ان کے تخلیق کاروں کے نام درج کئے جارہے ہیں ، جس سے ان زبان زد اشعار کے اصل شاعر کا نام قارئین کو معلوم ہوسکے ۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
حیرت الہ آبادی ( بحوالہ جواہر سخن صفحہ 546)
چاہت کا جب مزہ ہے کہ وہ بھی ہوں بیقرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
ظہیر دہلوی (بحوالہ دیوان ظہیر صفحہ 235)
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
ظہیر دہلوی (بحوالہ خمخانۂ جاوید صفحہ 486)
کہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
سعید احمد ناطق لکھنوی(بحوالہ جدید غزل گو صفحہ 247)
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
لالہ مادھورام جوہر فرخ آبادی (بحوالہ انتخاب کلام جوہر صفحہ 31)
نالۂ بلبلِ شیدا تو سنا ہنس ہنس کر
اب جگر تھام کے بیٹھو مِری باری آئی
لالہ مادھورام جوہر فرخ آبادی (بحوالہ انتخاب کلام جوہر صفحہ 53)
کیا خوب برق تو نے دکھایا ہے زورِ طبع
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
لالہ رام رکھا برق (بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 33)
چند تصویرِ بُتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے یہ گھر سے مرے ساماں نکلا
بزم اکبر آبادی (بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 33)
اب مجھ سے کاروبار کی حالت نہ پوچھئے
آئینہ بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
محمود سروش (بحوالہ متاع ہُنر صفحہ 216)
زبان زد اشعار ، ضرب المثل اشعار ، ضرب المثل مصرعے ، گمنام یا غیر معروف شعراء کے ہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ، لیکن ان کے متعلق تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شہرت نہیں ملی ورنہ ان کے اشعار مشہور اور بڑے شعراء کی صف میں انھیں کھڑا کرنے کے قابل ہیں ۔ اخبار کے ادبی صفحے میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ طویل مقالے شائع ہوسکیں ورنہ اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ، تاہم قارئین سیاست کی معلومات میں اضافے کے لئے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے