سودا غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں؟ . سودا

فرخ منظور

لائبریرین
غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں؟
جلوہ گر یار مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں؟
مہر ہر ذرے میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں؟
پاسِ ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل
ورنہ یاں کون سا اندازِ فغاں ہے کہ نہیں؟
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
آگے شمشیر تمہاری کے بھلا یہ گردن
مُو سے باریک تر اے خوش کمراں ہے کہ نہیں؟
جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
کوئی تو بولو میاں منہ میں زباں ہے کہ نہیں؟
قطعہ
پوچھا اِک روز میں سودا سے کہ اے آوارہ
تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں؟
یک بہ یک ہو کے بر آشفتہ لگا یہ کہنے
کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں؟
دل کو جن کے ہے تعلق یہ مکاں کیا جانیں
عدمِ ہستی انہوں کے بہ گماں ہے کہ نہیں؟
دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اوپر اِک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا "کوئی یاں ہے کہ نہیں؟"
(مرزا رفیع سودا)
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟

یعنی یہ شہرہ آفاق مصرعہ اس غزل کا ہے۔

بہت خوب انتخاب ہے۔
 
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوںکچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
مرزامحمد رفیع السوداؔ بہترین انتخاب مگر اِس شعر کے دوسرے مصرعے کی یہ مختلف صورتیں دیکھنے کوملتیں ہیں دُرست کون سی ہے ؟ اساتذۂ کرام رہنمائی فرمائیں، نوازش ہوگی:
کچھ علاج اِس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں!
اور کہیں اِسی مصرعے کو اِس طرح لکھا پایا:
کچھ علاج اِس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں!
یہاں تو ایک تیسری صورت دیکھنے میں آئی:
کچھ علاج اِن کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں!
 
آخری تدوین:
Top