فرخ منظور
لائبریرین
غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں؟
جلوہ گر یار مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں؟
مہر ہر ذرے میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں؟
پاسِ ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل
ورنہ یاں کون سا اندازِ فغاں ہے کہ نہیں؟
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
آگے شمشیر تمہاری کے بھلا یہ گردن
مُو سے باریک تر اے خوش کمراں ہے کہ نہیں؟
جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
کوئی تو بولو میاں منہ میں زباں ہے کہ نہیں؟
قطعہ
پوچھا اِک روز میں سودا سے کہ اے آوارہ
تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں؟
یک بہ یک ہو کے بر آشفتہ لگا یہ کہنے
کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں؟
دل کو جن کے ہے تعلق یہ مکاں کیا جانیں
عدمِ ہستی انہوں کے بہ گماں ہے کہ نہیں؟
دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اوپر اِک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا "کوئی یاں ہے کہ نہیں؟"
(مرزا رفیع سودا)