فائدے میں رہتے تھے فائدے سے نکلے ہیں۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
فائدے میں رہتے تھے فائدے سے نکلے ہیں
اُن سے کوئی پوچھے کیوں قائدے سے نکلے ہیں

رہبری ہی بھٹکی ہو تب چھُڑا کے دامن کو
حوصلے ہیں اُن کے جو قافلے سے نکلے ہیں

گر ملے نہ منزل تو اِن کی کیا حثیّت ہے
یہ جو میرے پاؤں میں آبلے سے نکلے ہیں

سب نے اپنے راستے طے کیے تھے پہلے سے
اپنے اپنے دیکھو سب راستے سے نکلے ہیں

اُن کی اب سیاست کے زاویے نہیں بنتے
جب سے ہم غلامی کےدائرے سے نکلے ہیں

اُفّ یہ جوگ کیسے ہیں نام تک نہیں لیتے
قتل کر کے یوں قاتل سامنے سے نکلے ہیں

شاعری نہ کر پائے درد سب بیاں میرے
لفظ جانے کتنے ہی قافیے سے نکلے ہیں


الف عین
 

شیرازخان

محفلین
اوپر ٹائپو غلطی ہے درست صورت۔۔۔
سب نے راستے اپنے طے کیے تھے پہلے سے
اپنے اپنے دیکھو سب راستے سے نکلے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مطلع کی رو سے، غزل غیر مقفیٰ ہے۔
مطلع میں ایک قافیہ بدل کر کچھ اور کردیں۔ جیسے: رابطے، سلسلے، مخمصے، کوئلے وعلی ہذا القیاس۔
مطلع کے مصرع ثانی میں صرف ٹائپو ٹھیک کر دیں ۔ قاعدے
۔تو بھی بات بن جائے گی ۔
 
مطلع کے مصرع ثانی میں صرف ٹائپو ٹھیک کر دیں ۔ قاعدے
۔تو بھی بات بن جائے گی ۔

میرے خیال میں ایسے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بات املائی غلطی کی نہیں
"دے "کی جو مطلعے میں قید لگائی گئی ہے اس کی وجہ سے تمام غزل کے قوافی غلط ہورہے ہیں۔
 

شیرازخان

محفلین
یوں کیسا رہے گا؟؟

اپنے فائدے کے اک سلسلے سے نکلے ہیں
اُن سے کوئی پوچھے کیوں قائدے سے نکلے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
سلسلے اور قاعدے (قائدے‘ نہیں) درست قوافی ہیں، اگرچہ مفہوم سمجھ میں پھر بھی نہیں آ سکا۔ اصل صورت میں ایطا کا سقم ہو جاتا ہے، چاہے وہ فائدے، قائدے ہو یا فائدے، قاعدے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل میں ردیف گڑبڑ لگ رہی ہے مجھے تو، اکثر اشعار میں معنی کیز نہیں۔

رہبری ہی بھٹکی ہو تب چھُڑا کے دامن کو
حوصلے ہیں اُن کے جو قافلے سے نکلے ہیں
÷÷’دامن کو‘میں ’کو‘ کی ضرورت نہیں۔

گر ملے نہ منزل تو اِن کی کیا حثیّت ہے
یہ جو میرے پاؤں میں آبلے سے نکلے ہیں
÷حثیت کیا لفظ ہے؟ اگر محض حیثیت استعمال کیا جائے تو درست ہے۔
ان کی حیثیت کیا ہے۔ مشدد تو اس زمین میں اس طرح آ سکتی ہے
ان کی کیا ہے حیثیت
لیکن روانی مار کھا جاتی ہے۔

سب نے راستے اپنےطے کیے تھے پہلے سے
اپنے اپنے دیکھو سب راستے سے نکلے ہیں
۔۔’دیکھو‘ کا مقام فٹ نہیں ہو رہا ہے دوسرے مصرع میں۔
آج اپنے اپنے سب۔۔۔
کر دیں تو؟

اُن کی اب سیاست کے زاویے نہیں بنتے
جب سے ہم غلامی کےدائرے سے نکلے ہیں
÷درست، اگرچہ ’اب‘ کی وجہ سے مصرع چست اور رواں نہیں

اُفّ یہ جوگ کیسے ہیں نام تک نہیں لیتے
قتل کر کے یوں قاتل سامنے سے نکلے ہیں
÷÷جوگ بمعنی اتفاق؟ عام معنی تو رہبانیت کے ہیں۔
اتفاق کیسا ہے، کر دیا جائے تو ؟

شاعری نہ کر پائے درد سب بیاں میرے
لفظ جانے کتنے ہی قافیے سے نکلے ہیں
÷پہلا مصرع مفہوم سے عاری ہے۔ شاید مراد یوں ہو۔
شاعری نہ بن پائی، درد سب بیاں کر کے
 

شوکت پرویز

محفلین
میرے خیال میں ایسے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بات املائی غلطی کی نہیں
"دے "کی جو مطلعے میں قید لگائی گئی ہے اس کی وجہ سے تمام غزل کے قوافی غلط ہورہے ہیں۔
مزمل بھائی!
کیا 'فائدے' اور 'قاعدے' قوافی درج ذیل قوافی کی طرح نہیں؟؟
دِلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
۔۔۔۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
۔۔۔۔
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے
۔۔۔۔
نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے

چاروں مطلعے استاد غالب کی غزل کے ہیں۔
 
مزمل بھائی!
کیا 'فائدے' اور 'قاعدے' قوافی درج ذیل قوافی کی طرح نہیں؟؟
دِلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
۔۔۔۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
۔۔۔۔
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے
۔۔۔۔
نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے

چاروں مطلعے استاد غالب کی غزل کے ہیں۔

آپ کی دوسری دو مثالیں تو اس غزل کے قوافی سے متعلق نہیں ہیں۔
پہلی دو مثالیں تھوڑی متعلق ہیں لیکن وہاں حرفِ روی کا مسئلہ مختلف ہے۔ کیونکہ ہوا اور دوا میں روی الف ٹھہرایا گیا ہے۔ جبکہ ہوا کا الف غیر اصلی ہے اور دوا کا اصلی ہے۔
دوسری طرف جب ہم ہائے مختفی کو دیکھتے ہیں تو اس میں حرف روی ہائے مختفی سے پہلے والا حرف جیسے فائدے اور قاعدے کی دال ہوتا ہے۔
لیکن بقول حسرت موہانی کے ایسے حروف میں جب مختلف حروف روی ایک جگہ ہوجائیں تو اس کا حرف وصل حرف روی بن جاتا ہے۔ جیسے فسانہ میں نون حرف روی ہے۔ لیکن متغیرہ صورت میں فسانا کا الف حرفِ روی بنے گا۔ اور لکھنا بھی اسے فسانا پڑے گا، فسانہ نہیں لکھا جائے گا۔
مختصر بات میں نے کردی ہے کہ فائدے اور قاعدے کو مطلعے میں باندھنے کے بعد زائچے، زاویے، قافیے وغیرہ باندھنا غلط ہے۔
بہر حال یہ تفصیل طلب موضوع ہے۔
 

شیرازخان

محفلین
مطلع میں ایک قافیہ بدل کر کچھ اور کردیں۔ جیسے: رابطے، سلسلے، مخمصے، کوئلے وعلی ہذا القیاس۔
یوں کیسا رہے گا؟؟ اپنے فائدے کے اک سلسلے سے نکلے ہیں اُن سے کوئی پوچھے کیوں قائدے سے نکلے ہیں[/QUOTE نے کہا:
پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔ یار کچھ سمجھ نہیں آ رہی اس قاعدے کی [USER=6021 نے کہا:
مزمل شیخ بسمل[/USER] صاحب ایک قافیہ بدلنے سے درست ہو گیا کہ نہیں ؟
 

عظیم

محفلین
فائدے کو جانے کس زاویے سے نکلے ہیں
قائدے میں رہتے تهے قائدے سے نکلے ہیں


کیا یہ قوافی درست مانے جائیں گے ؟
 
Top