محسن وقار علی
محفلین
یہ پچھلے شاندار انتخابات کے نتیجے میں ایک شاندار حکومت کے وجود میں آنے سے پہلے کی بات ہے جس نے حال ہی میں اپنی شاندار عہدساز حکومت کے شاندار پانچ سال قوم کی دعاؤں سے پورے کئے ہیں۔ حکومت کے سر پر منڈلانے والی کالی بلاؤں کو رفع دفع کرنے کیلئے لگاتار، بلا کسی ناغے کے پانچ برس تک کالے بکر ے، کالے ککڑ یعنی مرغے،کالے تیتر ذبح ہوتے رہے۔ اس دوران کبھی کبھار ایک آدھ بھولا بھٹکا کالا گیدڑ بھی کٹ جاتا تھا۔ کالے چرند اور کالے پرند کا خون اسلام آباد میں ایوان صدر کے اطراف چھڑکا جاتا تھا اور کراچی میں بلاول ہاؤس کے سامنے سڑک پر سیسہ پلائی دیوہیکل خاردار دیوار کی بنیادوں میں ڈالا جاتا تھا۔ کراچی کی سیسہ پلائی دیوار کے ساتھ ساتھ شام ڈھلے اگربتیاں اور لوبان جلائے جاتے تھے۔ نو عمر اور معمر ملّاؤں سے دعائیں کرائی جاتی تھیں بلکہ اب تک کرائی جاتی ہیں کہ اے اللہ اس سیسہ پلائی دیوار کو قیامت تک قائم اور دائم رکھنا، اس سیسہ پلائی دیوار کو تاریخی حیثیت دینا تاکہ دور دور سے آنے والے سیاح دیوار کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں۔ دیوار چین کو بھول جائیں اور دیوار کراچی کو یاد رکھیں۔ مجھے باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ بلاول ہاؤس کلفٹن کے سامنے روڈ پر بنی ہوئی دیوار کراچی ایٹم بم پروف ہے۔ نیوکلیئر میزائل بھی دیوار کراچی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یاد رہے کہ سیسہ پلائی دیوار کراچی کی آبیاری کالے چرند اور کالے پرند کے سرخ خون سے ہوتی رہی ہے۔ دیوار کراچی پانچ سال پورے کرنے والی شاندار حکومت کا شاندار کارنامہ ہے۔
کراچی میں صرف ایک نو گو ایریا ہے اور وہ ہے بلاول ہاؤس کلفٹن کے اطراف۔ میں متوالا کراچی کی گلی کوچوں میں بھٹکتا رہتا ہوں۔ کیماڑی، کلاکوٹ، کالا پل، کٹی پہاڑی سے لے کر میں ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، ساؤتھ ناظم آباد، ویسٹ ناظم آباد اور ایسٹ ناظم آباد میں گھومتا پھرتا ہوں۔ کبھی کسی نے مجھے کہیں آنے جانے سے منع نہیں کیا ہے۔ کراچی کو گھیرا ڈالنے والی لاتعداد کالونیوں مثلاً مچھر کالونی، جھنگور کالونی، مینڈک کالونی، بھینس کالونی، گائے کالونی، بکرا، بکری کالونی، خاموش کالونی، شور کالونی وغیرہ میں مٹرگشت کرتا پھرتا ہوں۔ کسی نے مجھے آج تک کہیں آنے جانے سے نہیں روکا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہتھیار بند ٹولوں نے، جرائم پیشہ رہزنوں نے، لوفر اور غنڈوں نے اپنے اپنے علاقے متعین کر لئے ہیں جہاں وہ دوسرے علاقوں کے ٹولوں کو آنے یا گزرنے نہیں دیتے لیکن ایسے علاقوں میں بھی مجھ جیسے ملنگوں کو جن کا اللہ سائیں کے سوا کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، کسی نے آنے جانے اور ڈھابوں کی چائے پینے اور ڈھابوں کا کھانا کھانے سے نہیں روکا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پولیس نے کارروائی کرنے کے لئے اپنے اپنے علاقے طے کر رکھے ہیں۔ وہ اپنے اپنے علاقے سے متعلق اس قدر چوکنا رہتے ہیں کہ اگر کوئی ٹرک آپ کو کچل کر آگے نکل جائے تو آپ سڑک کے بیچوں بیچ چاروں شانے چت اس وقت تک تڑپتے رہیں گے جب تک یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ آپ کس پولیس اسٹیشن کی حدود میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کی ٹانگیں ایک پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہیں اور دھڑ دوسرے پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہے تو پھر آپ سڑک پر پڑے پڑے اللہ کو پیارے ہو جائیں گے۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ کے لئے اور میرے لئے کراچی میں نو گو ایریا نہیں ہے۔ ایک علاقے کے ٹھگ دوسرے علاقے کے ٹھگوں کو اپنے علاقے میں نہیں آنے دیتے، اسی طرح ایک علاقے میں مقیم کرائے کے قاتل دوسرے علاقے سے آنے والے کرائے کے قاتل کو قبول نہیں کرتے۔ ہتھیار اور منشیات کا کاروبار کرنے والے کسی دوسرے علاقے سے ہتھیار اور منشیات بیچنے والے کو اپنے محلے میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ یہ جرائم کی دنیا کا قانون ہے جو آپ پر اور مجھ پر لاگو نہیں ہوتا لیکن میں پورے شہر میں گھومنے پھرنے والا اللہ سائیں کا آدمی بلاول ہاؤس کلفٹن کے علاقے سے گزرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ ایک مرتبہ پیر سائیں کی کرامت سے میں چڑیا بن گیا تھا۔ یہ میری تمنا تھی، یہ میری خواہش تھی۔ میں چڑیا بن کر بلاول ہاؤس کے آنگن میں اتر کر دیکھنا چاہتا تھا کہ بلاول ہاؤس کے اندر کیا ہے اور کیا کیا ہو رہا ہے مگر افسوس کہ چڑیا بن جانے کے بعد میں بلاول ہاؤس کی منڈیر پر بیٹھ کر پر مارنے کی ہمت نہ کر سکا۔ اس کو کہتے ہیں نو گو ایریا۔ اگر آپ نو گو ایریا کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں تو پھر بلاول ہاؤس کے قریب اس روڈ پر پیر رکھنے کی حماقت کر کے دیکھ لیں جس پر دیوہیکل، سیسہ پلائی، ایٹم بم پروف دیوار کھڑی ہوئی ہے، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ نو گو ایریا کس کو کہتے ہیں۔یہ تھی تمہید اس کہانی کی جو میں آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔ یہ کیا لکھ دیا ہے میں نے! میرا کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ ویسے بھی کہانی سنانے میں کہاں جاؤں گا، کس کس کے پاس جاؤں گا؟
پچھلے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ڈکٹیٹر پرویز مشرف، صوفی کاؤنسل آف پاکستان کے پیٹرن ان چیف یعنی صوفی اعظم نے امیدواروں کیلئے لازمی قرار دے دیا تھا کہ وہ کم از کم گریجویٹ ہوں۔ اس فیصلے نے پاکستان کے موروثی سیاستدانوں، علم اور تعلیم کے دشمنوں، وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، پیروں اور سرداروں کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ وہ سیاست سے دستبردار ہونے کے بجائے ڈگریاں ہتھیانے کے پیچھے پڑ گئے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف زرداری نے مستند طریقے سے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں آدمی بکتا ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھا۔ وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، پیروں، سرداروں نے یونیورسٹی اور کالجز میں کام کے آدمیوں کو منہ بولے داموں خریدا اور اپنے اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ ایک عدد اعلیٰ ڈگری لگا دی۔ اس دور میں ڈگریاں خریدنے اور ڈگریاں بیچنے کے کاروبار نے دیگر کاروباروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ انہی دنوں کی ایک سچّی کہانی سنانے سے پہلے ہم ایک ہفتے کا چھوٹا سا بریک لیتے ہیں۔ آپ کہیں مت جائیے گا، اونگھتے اور جمائیاں لیتے رہئے گا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کراچی میں صرف ایک نو گو ایریا ہے اور وہ ہے بلاول ہاؤس کلفٹن کے اطراف۔ میں متوالا کراچی کی گلی کوچوں میں بھٹکتا رہتا ہوں۔ کیماڑی، کلاکوٹ، کالا پل، کٹی پہاڑی سے لے کر میں ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، ساؤتھ ناظم آباد، ویسٹ ناظم آباد اور ایسٹ ناظم آباد میں گھومتا پھرتا ہوں۔ کبھی کسی نے مجھے کہیں آنے جانے سے منع نہیں کیا ہے۔ کراچی کو گھیرا ڈالنے والی لاتعداد کالونیوں مثلاً مچھر کالونی، جھنگور کالونی، مینڈک کالونی، بھینس کالونی، گائے کالونی، بکرا، بکری کالونی، خاموش کالونی، شور کالونی وغیرہ میں مٹرگشت کرتا پھرتا ہوں۔ کسی نے مجھے آج تک کہیں آنے جانے سے نہیں روکا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہتھیار بند ٹولوں نے، جرائم پیشہ رہزنوں نے، لوفر اور غنڈوں نے اپنے اپنے علاقے متعین کر لئے ہیں جہاں وہ دوسرے علاقوں کے ٹولوں کو آنے یا گزرنے نہیں دیتے لیکن ایسے علاقوں میں بھی مجھ جیسے ملنگوں کو جن کا اللہ سائیں کے سوا کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، کسی نے آنے جانے اور ڈھابوں کی چائے پینے اور ڈھابوں کا کھانا کھانے سے نہیں روکا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پولیس نے کارروائی کرنے کے لئے اپنے اپنے علاقے طے کر رکھے ہیں۔ وہ اپنے اپنے علاقے سے متعلق اس قدر چوکنا رہتے ہیں کہ اگر کوئی ٹرک آپ کو کچل کر آگے نکل جائے تو آپ سڑک کے بیچوں بیچ چاروں شانے چت اس وقت تک تڑپتے رہیں گے جب تک یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ آپ کس پولیس اسٹیشن کی حدود میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کی ٹانگیں ایک پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہیں اور دھڑ دوسرے پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہے تو پھر آپ سڑک پر پڑے پڑے اللہ کو پیارے ہو جائیں گے۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ کے لئے اور میرے لئے کراچی میں نو گو ایریا نہیں ہے۔ ایک علاقے کے ٹھگ دوسرے علاقے کے ٹھگوں کو اپنے علاقے میں نہیں آنے دیتے، اسی طرح ایک علاقے میں مقیم کرائے کے قاتل دوسرے علاقے سے آنے والے کرائے کے قاتل کو قبول نہیں کرتے۔ ہتھیار اور منشیات کا کاروبار کرنے والے کسی دوسرے علاقے سے ہتھیار اور منشیات بیچنے والے کو اپنے محلے میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ یہ جرائم کی دنیا کا قانون ہے جو آپ پر اور مجھ پر لاگو نہیں ہوتا لیکن میں پورے شہر میں گھومنے پھرنے والا اللہ سائیں کا آدمی بلاول ہاؤس کلفٹن کے علاقے سے گزرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ ایک مرتبہ پیر سائیں کی کرامت سے میں چڑیا بن گیا تھا۔ یہ میری تمنا تھی، یہ میری خواہش تھی۔ میں چڑیا بن کر بلاول ہاؤس کے آنگن میں اتر کر دیکھنا چاہتا تھا کہ بلاول ہاؤس کے اندر کیا ہے اور کیا کیا ہو رہا ہے مگر افسوس کہ چڑیا بن جانے کے بعد میں بلاول ہاؤس کی منڈیر پر بیٹھ کر پر مارنے کی ہمت نہ کر سکا۔ اس کو کہتے ہیں نو گو ایریا۔ اگر آپ نو گو ایریا کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں تو پھر بلاول ہاؤس کے قریب اس روڈ پر پیر رکھنے کی حماقت کر کے دیکھ لیں جس پر دیوہیکل، سیسہ پلائی، ایٹم بم پروف دیوار کھڑی ہوئی ہے، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ نو گو ایریا کس کو کہتے ہیں۔یہ تھی تمہید اس کہانی کی جو میں آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔ یہ کیا لکھ دیا ہے میں نے! میرا کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ ویسے بھی کہانی سنانے میں کہاں جاؤں گا، کس کس کے پاس جاؤں گا؟
پچھلے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ڈکٹیٹر پرویز مشرف، صوفی کاؤنسل آف پاکستان کے پیٹرن ان چیف یعنی صوفی اعظم نے امیدواروں کیلئے لازمی قرار دے دیا تھا کہ وہ کم از کم گریجویٹ ہوں۔ اس فیصلے نے پاکستان کے موروثی سیاستدانوں، علم اور تعلیم کے دشمنوں، وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، پیروں اور سرداروں کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ وہ سیاست سے دستبردار ہونے کے بجائے ڈگریاں ہتھیانے کے پیچھے پڑ گئے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف زرداری نے مستند طریقے سے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں آدمی بکتا ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھا۔ وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، پیروں، سرداروں نے یونیورسٹی اور کالجز میں کام کے آدمیوں کو منہ بولے داموں خریدا اور اپنے اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ ایک عدد اعلیٰ ڈگری لگا دی۔ اس دور میں ڈگریاں خریدنے اور ڈگریاں بیچنے کے کاروبار نے دیگر کاروباروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ انہی دنوں کی ایک سچّی کہانی سنانے سے پہلے ہم ایک ہفتے کا چھوٹا سا بریک لیتے ہیں۔ آپ کہیں مت جائیے گا، اونگھتے اور جمائیاں لیتے رہئے گا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ