جناب
مزمل شیخ بسمل یہ شعر کس کا ہے؟ یہ پوچھنا اس لئے پڑا کہ جناب
حسان خان کے مطابق پہلا لفظ ’’خیرے‘‘ نہیں ’’خبرے‘‘ ہے۔ سو، متن کی بات پہلے آ گئی۔ میں نے نیٹ پر تلاش کیا تو ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کی سائٹ پر سید ضمیر جعفری کی رحلت کے حوالے سے ایک مضمون میں یہ متن ملا ہے:
خیرے کن اے فلاں، غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نما ند
شاعر کا حوالہ مل جاتا تو تلاش آسان ہو جاتی۔
میری رائے میں یہاں ’’خبرے کن‘‘ کی بجائے ’’خیرے کن‘‘ زیادہ قابلِ فہم ہے (نیکی کر)۔
اے فلاں! (خطابِ عام ہے) عمر کو غنیمت جان اور یہ صدا اٹھنے سے پہلے کہ فلاں نہیں رہا، نیکی کر لے۔
ف
ارسی شاعری میں نون منقوط لکھنے کا رواج زیادہ ہے، صوت میں چاہے وہ نون غنہ ہو یا نون ناطق۔ شعر پڑھنے میں نطق و غنہ کی تفریق ہو جاتی ہے اور اس کو (نون کا نقطہ ڈالنے یا نہ ڈالنے کو) چنداں اہمیت نہیں دی جاتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس شعر کے حوالے سے ’’براید‘‘ یا ’’برآید‘‘ میں علامتِ مدہ کا ہے۔ لفظی حوالے سے دیکھیں تو ’’خبر کردن‘‘ کے معنی ہیں خبر کرنا یا اطلاع دینا۔ خبر رکھنا کے لئے ’’خبر داشتن‘‘ ہے اور لفظ ’’خبردار‘‘ اسی سے ہے۔ ’’خیرے کن‘‘ میں ’’خیر‘‘ نیکی کے ساتھ حرف ’’ے‘‘ ایک کے معانی میں بھی ہے اور عموم یعنی ’’کوئی، کسی‘‘ وغیرہ کے معانی میں بھی ہے۔
رہ گئی بات واوِ عطفی کی ’’اے فلاں و غنیمت شمار عمر‘‘
اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یہاں کوما ہو یا واو، تقاضا نون منقوط کا ہے۔
’’اے فلان و غنیمت شمار عمر‘‘۔