فارسی سے اردو ترجمہ درکار!

حسان خان

لائبریرین
خبرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند

اے فلاں شخص! آگاہ رہو اور اپنی عمر کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ صدا بلند ہو کہ فلاں شخص نہیں رہا۔
 
جناب مزمل شیخ بسمل یہ شعر کس کا ہے؟ یہ پوچھنا اس لئے پڑا کہ جناب حسان خان کے مطابق پہلا لفظ ’’خیرے‘‘ نہیں ’’خبرے‘‘ ہے۔ سو، متن کی بات پہلے آ گئی۔ میں نے نیٹ پر تلاش کیا تو ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کی سائٹ پر سید ضمیر جعفری کی رحلت کے حوالے سے ایک مضمون میں یہ متن ملا ہے:
خیرے کن اے فلاں، غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نما ند
شاعر کا حوالہ مل جاتا تو تلاش آسان ہو جاتی۔

میری رائے میں یہاں ’’خبرے کن‘‘ کی بجائے ’’خیرے کن‘‘ زیادہ قابلِ فہم ہے (نیکی کر)۔
اے فلاں! (خطابِ عام ہے) عمر کو غنیمت جان اور یہ صدا اٹھنے سے پہلے کہ فلاں نہیں رہا، نیکی کر لے۔

فارسی شاعری میں نون منقوط لکھنے کا رواج زیادہ ہے، صوت میں چاہے وہ نون غنہ ہو یا نون ناطق۔ شعر پڑھنے میں نطق و غنہ کی تفریق ہو جاتی ہے اور اس کو (نون کا نقطہ ڈالنے یا نہ ڈالنے کو) چنداں اہمیت نہیں دی جاتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس شعر کے حوالے سے ’’براید‘‘ یا ’’برآید‘‘ میں علامتِ مدہ کا ہے۔ لفظی حوالے سے دیکھیں تو ’’خبر کردن‘‘ کے معنی ہیں خبر کرنا یا اطلاع دینا۔ خبر رکھنا کے لئے ’’خبر داشتن‘‘ ہے اور لفظ ’’خبردار‘‘ اسی سے ہے۔ ’’خیرے کن‘‘ میں ’’خیر‘‘ نیکی کے ساتھ حرف ’’ے‘‘ ایک کے معانی میں بھی ہے اور عموم یعنی ’’کوئی، کسی‘‘ وغیرہ کے معانی میں بھی ہے۔

رہ گئی بات واوِ عطفی کی ’’اے فلاں و غنیمت شمار عمر‘‘
اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یہاں کوما ہو یا واو، تقاضا نون منقوط کا ہے۔​
’’اے فلان و غنیمت شمار عمر‘‘۔

مزید کے لئے جناب محمد وارث کو زحمت دوں گا۔​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جناب مزمل شیخ بسمل یہ شعر کس کا ہے؟ یہ پوچھنا اس لئے پڑا کہ جناب حسان خان کے مطابق پہلا لفظ ’’خیرے‘‘ نہیں ’’خبرے‘‘ ہے۔ سو، متن کی بات پہلے آ گئی۔ میں نے نیٹ پر تلاش کیا تو ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کی سائٹ پر سید ضمیر جعفری کی رحلت کے حوالے سے ایک مضمون میں یہ متن ملا ہے:
خیرے کن اے فلاں، غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نما ند
شاعر کا حوالہ مل جاتا تو تلاش آسان ہو جاتی۔

میری رائے میں یہاں ’’خبرے کن‘‘ کی بجائے ’’خیرے کن‘‘ زیادہ قابلِ فہم ہے (نیکی کر)۔
اے فلاں! (خطابِ عام ہے) عمر کو غنیمت جان اور یہ صدا اٹھنے سے پہلے کہ فلاں نہیں رہا، نیکی کر لے۔

فارسی شاعری میں نون منقوط لکھنے کا رواج زیادہ ہے، صوت میں چاہے وہ نون غنہ ہو یا نون ناطق۔ شعر پڑھنے میں نطق و غنہ کی تفریق ہو جاتی ہے اور اس کو (نون کا نقطہ ڈالنے یا نہ ڈالنے کو) چنداں اہمیت نہیں دی جاتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس شعر کے حوالے سے ’’براید‘‘ یا ’’برآید‘‘ میں علامتِ مدہ کا ہے۔ لفظی حوالے سے دیکھیں تو ’’خبر کردن‘‘ کے معنی ہیں خبر کرنا یا اطلاع دینا۔ خبر رکھنا کے لئے ’’خبر داشتن‘‘ ہے اور لفظ ’’خبردار‘‘ اسی سے ہے۔ ’’خیرے کن‘‘ میں ’’خیر‘‘ نیکی کے ساتھ حرف ’’ے‘‘ ایک کے معانی میں بھی ہے اور عموم یعنی ’’کوئی، کسی‘‘ وغیرہ کے معانی میں بھی ہے۔

رہ گئی بات واوِ عطفی کی ’’اے فلاں و غنیمت شمار عمر‘‘
اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یہاں کوما ہو یا واو، تقاضا نون منقوط کا ہے۔​
’’اے فلان و غنیمت شمار عمر‘‘۔

مزید کے لئے جناب محمد وارث کو زحمت دوں گا۔​
فارسی زبان میں قدیم زمانے میں ہوتا ہو تو ہو، اب "نون غنہ" نہیں ہوتا۔ دراصل اردو بولنے والے جسے "نون غنہ" پڑھتے ہیں، فارسی والے اسے نونِ منقوطہ ہی لکھتے اور پڑھتے ہیں، مگر اس سے پہلے والے حرفِ علت ( الف، واو، یاء) کو اس انداز میں محذوف کر کے ادا کیا جاتا ہے کہ بالترتیب "زبر"، "پیش" یا "زیر" کی آواز نکلتی ہے۔ اس طرح لفظ کا وزن پہلے جیسا ہی رہتا ہے۔

تلفظ ہی کے سلسلے میں مزید یہ بات کہ فارسی میں "یائے مجہول" بھی بعض اوقات لکھی تو جاتی ہے مگر اسے بھی پڑھا "یائے معروف" کی طرح ہی جاتا ہے۔ جیسے لکھیں گے "رُوزے" (ایک دن) مگر پڑھیں گے "رُوزی"۔"خبرے"کو بھی "خبری" پڑھا جائے گا۔

امید ہے کہ اردو بولنے والے حضرات اس جملہءِ معترضہ کو مفید معلومات سمجھ کر میری دخل اندازی کو گستاخی نہ سمجھیں گے۔ بحث نظروں کے سامنے سے گزری تو رہا نہ گیا۔ کہ فارسی میری "تقریباً مادری زبان" ہی ہے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
شاید نیٹ ورک یا براؤزر کی غلطی سے میرا پچھلا مراسلہ مکرر ارسال ہو گیا۔ کوئی تصحیح فرما دے تو اچھا ہو۔
 
شاید نیٹ ورک یا براؤزر کی غلطی سے میرا پچھلا مراسلہ مکرر ارسال ہو گیا۔ کوئی تصحیح فرما دے تو اچھا ہو۔

اگر آپ اپنے ’’مکرر ارشاد‘‘ کے نیچے ’’حذف‘‘ کی ٹیب دیکھ رہے ہوں تو اس کو کام میں لائیں۔ نہیں تو ناظمین پر چھوڑ دیں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بلوچی زبان میں ویسے بھی فارسی کے الفاظ بہت ہیں، املاء و اصوات میں کچھ تبدیلیاں ہوں تو ہوں۔
یہ بات تو آپ کی با لکل درست ہے کہ بلوچی زبان فارسی کے کا فی قریب ہے۔ مگر میرا بلوچی سے کوئی تعلق نہیں۔ "تقریباً مادری زبان" سے مراد یہ تھی کہ والد صاحب کے کچھ خاندان میں "دری" بولی جاتی تھی، جس کے سبب ہمیں بھی دری سننے سیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ دوسرا کوئٹہ میں جب تک رہا، افغانستان سے آئے "دری" بولنے والے مہاجرین سے کافی تعلق رہا ۔ انہیں اردو، انگلش بھی پڑھائی۔ وہ شاید مجھ سے کچھ نہ سیکھے ہوں گے، مگر مجھے اپنی زبان اچھی سکھائی۔ ایک اور خوش قسمتی کہ کوئٹہ میں قیام کے دوران، دو مختلف ایرانی (جن میں سے ایک دراصل ترکی النسل تھے) اساتذہ سے ایرانی لہجے کی فارسی سیکھنے کا موقع ملا۔ بات پرانی ہوئی۔ اب تو کافی کچھ بھول چکا ہوں ۔ کہ اہلِ زباں سے کوئی میل ملاقات ہی نہ رہی۔ (خدا جانے میری ہر بات لمبی کیوں ہو جاتی ہے۔ شاید ٹیچنگ کے زمانے کا اثر ہے!)
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں قدیم زمانے میں ہوتا ہو تو ہو، اب "نون غنہ" نہیں ہوتا۔

کاشف بھائی، جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے، فارسی میں نون غنہ کبھی رہا ہی نہیں۔ یہ تو آریائی زبانوں بالخصوص اردو کا اثر ہے جو پاک و ہند کے فاری لہجے میں نون غنہ در آیا ہے۔ لیکن یہ کوئی 'غلط' بات نہیں، فارسی شروع سے بین الاقوامی زبان رہی ہے، اور اس پر کسی ایک ملک یا ملت کی اجارہ داری نہیں۔ چونکہ یہ ہماری اپنی زبان ہے، اس لیے ہمیں حق حاصل ہے کہ فارسی کو اپنے مروجہ لہجے کے مطابق جس طرح چاہیں پڑھیں۔ :)

تلفظ ہی کے سلسلے میں مزید یہ بات کہ فارسی میں "یائے مجہول" بھی بعض اوقات لکھی تو جاتی ہے مگر اسے بھی پڑھا "یائے معروف" کی طرح ہی جاتا ہے۔ جیسے لکھیں گے "رُوزے" (ایک دن) مگر پڑھیں گے "رُوزی"۔"خبرے"کو بھی "خبری" پڑھا جائے گا۔

اس میں علاقائی لہجوں کا فرق شامل ہے۔ ایران کی اور ترکی میں زیرِ استعمال رہنے والی فارسی میں یائے مجہول کی آواز مفقود ہو چکی ہے، اور وہاں شیر (lion) اور شیر (دودھ) ہم آواز الفاظ ہیں اور دونوں کو sheer پڑھا جاتا ہے۔ لیکن تاجیکستانی اور افغان لہجے میں یائے مجہول کی قدیم آواز بدستور موجود ہے، یعنی وہ می کُند کو بھی مے کند لکھتے اور پڑھتے ہیں، اور نکرہ کی علامت کے لیے بھی یائے مجہول استعمال کرتے ہیں۔

آپ یہاں سے تاجیکی لہجے میں خبریں سُن سکتے ہیں۔ تاجیکی لہجہ ایرانی لہجے کے مقابلے میں قدرے کرخت ہے۔
http://www.rferl.org/howtolisten/TA/ondemand.html

اور اگر کابل کے فارسی لہجے میں خبریں سننی ہیں تو یہ ربط ملاحظہ کیجئے۔
http://www.rferl.org/howtolisten/AF/ondemand.html
 

حسان خان

لائبریرین
ایک اور خوش قسمتی کہ کوئٹہ میں قیام کے دوران، دو مختلف ایرانی (جن میں سے ایک دراصل ترکی النسل تھے) اساتذہ سے ایرانی لہجے کی فارسی سیکھنے کا موقع ملا۔

میرے خانۂ فرہنگ کے فارسی استاد بھی اردبیل کے ترک تھے۔ :)
 
"تقریباً مادری زبان" سے مراد یہ تھی کہ والد صاحب کے کچھ خاندان میں "دری" بولی جاتی تھی، جس کے سبب ہمیں بھی دری سننے سیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ دوسرا کوئٹہ میں جب تک رہا، افغانستان سے آئے "دری" بولنے والے مہاجرین سے کافی تعلق رہا ۔​

ایک زمانہ تھا (آپ بھلا زمانہ کہہ لیجئے)۔ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کا روزانہ رات نو سے بارہ بجے تک ایک نشریہ ہوا کرتا تھا: ’’آوازِ دوست‘‘۔ یہ پورا دری زبان میں ہوتا اور اس میں فارسی شاعری بھی سنائی جاتی۔ میں بہت شوق سے سنا کرتا تھا۔ اقبال کی ’’حدی‘‘ پہلی بار وہیں سنی تھی ۔۔۔
ناقہء سیارِ من ۔۔ ۔۔ ۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ایک زمانہ تھا (آپ بھلا زمانہ کہہ لیجئے)۔ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کا روزانہ رات نو سے بارہ بجے تک ایک نشریہ ہوا کرتا تھا: ’’آوازِ دوست‘‘۔ یہ پورا دری زبان میں ہوتا اور اس میں فارسی شاعری بھی سنائی جاتی۔ میں بہت شوق سے سنا کرتا تھا۔ اقبال کی ’’حدی‘‘ پہلی بار وہیں سنی تھی ۔۔۔
ناقہء سیارِ من ۔۔ ۔۔ ۔۔
کوئٹہ میں ہمارے گھر کے پاس ہی کبھی کبھی افغانی موسیقی کی محفل لگتی تھی۔ تمام رات ایسی بزم سجتی تھی کہ لطف آ جاتا تھا۔ میں تو گھر بیٹھے ہی حظ اٹھاتا رہتا تھا۔ کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہو، آگ کا الاؤ ہو، طنبورہ اور رباب کی دھنیں ہوں، خوش الحان گویوں کے نغمے ہوں۔ اس سے بہتر کا تو تصور بھی مشکل ہے۔

ہر چند بنزدِ عامہ این باشد زشت​
سگ بہ زمن ار دگر برم نامِ بہشت!​
 

عمراعظم

محفلین
رفتم برائیے گریہ ، رفتم برائیے فریاد
مرہم ’مرادِ من بود،کعبہ تو رو من داد

میں خانہء کعبہ گریہ و زار ی اور فریاد کرنے گیا
میرا مقصود مرہم تھا ،اللہ نے تجھے عطا فرما دیا
 

عمراعظم

محفلین
فارسی میری محبوب ترین زبان ہے۔کچھ عرصہ قریبی تعلق بھی رہا۔لیکن کئی دہائیوں سے یہ تعلق منقطع ہو گیا۔
کاشف عمران صاحب سے گزارش ہے کہ مندرجہ بالا شعر کی املا اور معنی کی تصحیح فرما دیں۔
 
Top