حسان خان
لائبریرین
نورالعین نام اور واقف تخلص تھا۔ اس کا شمار پنجاب کے شرفاء میں ہوتا تھا۔ اس کے والد اور دادا بٹالہ کے قاضی تھے۔ یہ بٹالہ لاہور کا ایک قصبہ ہے۔ قدرت اللہ نے نتائج الافکار میں اس کے والد کا نام قاضی امانت اللہ لکھا ہے۔ خان آرزو کا بیان ہے کہ واقف مختلف علوم و فنون میں دستگاہ رکھتا تھا اور اس نے نامور شعراء کے تتبع میں اشعار کہے ہیں۔ اس نے خان آرزو کو بھی خط لکھا تھا اور اپنے اشعار کی اصلاح کی درخواست کی تھی لیکن خان آرزو نے انکار کیا تھا کہ وہ اس لائق نہیں ہے کہ اس کے اشعار کی اصلاح کرے۔ لیکن اس کے باوجود واقف نے اپنے کچھ اشعار اصلاح کی غرض سے خان آرزو کی خدمت میں بھیجے تھے۔ خان آرزو کو اس کے اشعار دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی اور اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر وہ اسی طرح مشقِ سخن کرتا رہے گا تو ایک دن بلند مقام پر پہنچے گا۔ خان آرزو نے اپنے تذکرے مجمع النفائس میں لکھا ہے کہ واقف کی شخصیت اس دور میں غنیمت تھی۔
سفینۂ ہندی میں لکھا ہے کہ واقف نے اوائل میں خوشگو سے اصلاح لی تھی اور بعدہ شاہ آفریں لاہوری کی شاگردی میں داخل ہوا تھا، لیکن اس کو ان دو استادوں سے تشفی نہیں ہوئی اس لیے اس نے شیخ سعدی اور امیر خسرو کے دیوان کو اپنا رہنما بنا دیا تھا اور اسی روشنی میں شعر کہتا تھا۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ واقف بھی شاہ آفریں کے شاگردوں میں تھا لیکن شاہ آفریں کے شاگرد حاکم لاہوری نے اپنے تذکرے میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ واقف شاہ آفریں کا شاگرد تھا۔ اس نے یہ ضرور لکھا ہے کہ اس کی پہلی ملاقات شاہ آفریں کے دولت کدے پر ہوئی تھی، بعدہ حاکم نے دعویٰ کیا ہے کہ واقف سے اس کے تعلقات کو اس وقت تک تیس سال ہو چکے تھے جس وقت کہ اس نے اپنا تذکرہ ۱۱۷۵ھ میں تالیف کیا تھا۔ کبھی کبھی واقف اس کے غریب خانے پر بھی آتا تھا اور اس طرح روز بروز دونوں کے درمیان اخلاص اور محبت بڑھتی گئی اور اکثر و بیشتر یہ دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر مشقِ سخن کرتے تھے۔ حاکم نے اس کے خصائلِ حمیدہ کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ اس کے بیان سے قلم قاصر ہے۔ اس کو علم و فضل ورثے میں ملا تھا۔ اس کے اشعار میں افکار کی چمک، اثر اور درد ہے۔ اس نے بلند معانی، شستہ الفاظ اور پاکیزہ خیالات اپنے کلام میں باندھے ہیں۔ سلاست اور فصاحت بھی درجۂ کمال پر ہے۔ حاکم لاہوری نے لکھا ہے کہ ایسے اشعار کہنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ خان آرزو نے اپنے تذکرے مجمع النفائس میں میر شمس الدین فقیر دہلوی کی بہت تعریف کی ہے لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ واقف کا مقابلہ فقیر دہلوی سے کیا جا سکتا ہے اور اس کو پنجاب کا شمس الدین کہنا چاہیے۔
قدرت اللہ نے بھی واقف کی شاعری کی بہت تعریف کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اس کے اشعار آبدار ہیں اور لولوئے شاہوار کی طرح ان میں چمک دمک پائی جاتی ہے۔ اس کے کلام میں نزاکتِ خیال، دل پذیری، سوز و گداز، فصاحت اور بلاغت پائی جاتی ہے۔
حاکم لاہوری کا بیان ہے کہ واقف کے دیوان میں قریباً چھ سات ہزار اشعار ہوں گے۔ اس نے قصیدے بھی کہے ہیں۔ اس کی ترجیع بند فصاحت اور درد کے کمال پر ہے۔ ایسی ترجیع بند قدماء میں سے کم ہی لوگوں نے کہی ہے۔ غزل تو اس کی خاص چیز ہے۔ اس نے رباعیاں بھی بہت خوب کہی ہیں۔ اس کے اشعار ایسے ہیں جو قاری کے دل پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہتے۔ اس کے کلام کی پختگی اور استادی درجۂ کمال پر ہے۔ اس نے خود اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اس کی شاعری نہیں بلکہ نالے اور آہیں ہیں۔ جس شاعر کا دل جتنا زیادہ غمناک اور پُرجوش ہو گا اس کی شاعری میں اسی قدر بلندی، اثر اور لطف پایا جائے گا۔
حاکم لاہوری رقم طراز ہے کہ واقف نہایت پرہیزگار اور سنتِ نبوی کی دل و جان سے پیروی کرنے والا تھا۔ وہ لوگوں سے کم ملتا تھا مگر غرور سے خالی تھا۔ اس کی شخصیت میں بے نیازی، آزادی اور دل کی امیری پائی جاتی ہے۔ اپنے عہد میں وہ دوستی اور خلوص میں ممتاز تھا۔ اس کی باتوں میں نرمی اور کم گوئی اس کی خاص صفت ہے حالانکہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے خصائل ایسے نہیں تھے۔ حاکم لاہوری نے لکھا ہے کہ وہ اس کے اعلیٰ اخلاق اور اخلاص کی وجہ سے اس کا غلام ہو گیا تھا۔ واقف حاکم لاہوری کے دکن اور سورت کے سفر میں ساتھ تھا اور سورت ہی سے حاکم فریضۂ حج کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔ حاکم نے اس موقع پر واقف کو اپنے دل میں دعا سے یاد کیا تھا کہ اللہ اس کو سلامتی کے ساتھ وطن پہنچائے اور اس کو بھی خانۂ کعبہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ مبارک کی زیارت سے نوازے۔ قدرت اللہ نے اپنے تذکرے میں بھی حاکم لاہوری اور واقف کے سفرِ دکن اور سورت کا ذکر کیا ہے۔ ہندی نے لکھا ہے کہ واقف کے دیوان میں قریباً دس ہزار اشعار ہوں گے۔ قدرت اللہ نے لکھا ہے کہ واقف نے ۱۱۹۵ھ میں وفات پائی۔
(ڈاکٹر محمد عرفان کی کتاب 'احوال و افکار و آثارِ شاہ فقیراللہ آفریں لاہوری' سے ماخوذ)
واقف لاہوری کا دیوان یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
https://archive.org/details/DivanEWaqifLahoriFarsi
محمد وارث سید عاطف علی
سفینۂ ہندی میں لکھا ہے کہ واقف نے اوائل میں خوشگو سے اصلاح لی تھی اور بعدہ شاہ آفریں لاہوری کی شاگردی میں داخل ہوا تھا، لیکن اس کو ان دو استادوں سے تشفی نہیں ہوئی اس لیے اس نے شیخ سعدی اور امیر خسرو کے دیوان کو اپنا رہنما بنا دیا تھا اور اسی روشنی میں شعر کہتا تھا۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ واقف بھی شاہ آفریں کے شاگردوں میں تھا لیکن شاہ آفریں کے شاگرد حاکم لاہوری نے اپنے تذکرے میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ واقف شاہ آفریں کا شاگرد تھا۔ اس نے یہ ضرور لکھا ہے کہ اس کی پہلی ملاقات شاہ آفریں کے دولت کدے پر ہوئی تھی، بعدہ حاکم نے دعویٰ کیا ہے کہ واقف سے اس کے تعلقات کو اس وقت تک تیس سال ہو چکے تھے جس وقت کہ اس نے اپنا تذکرہ ۱۱۷۵ھ میں تالیف کیا تھا۔ کبھی کبھی واقف اس کے غریب خانے پر بھی آتا تھا اور اس طرح روز بروز دونوں کے درمیان اخلاص اور محبت بڑھتی گئی اور اکثر و بیشتر یہ دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر مشقِ سخن کرتے تھے۔ حاکم نے اس کے خصائلِ حمیدہ کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ اس کے بیان سے قلم قاصر ہے۔ اس کو علم و فضل ورثے میں ملا تھا۔ اس کے اشعار میں افکار کی چمک، اثر اور درد ہے۔ اس نے بلند معانی، شستہ الفاظ اور پاکیزہ خیالات اپنے کلام میں باندھے ہیں۔ سلاست اور فصاحت بھی درجۂ کمال پر ہے۔ حاکم لاہوری نے لکھا ہے کہ ایسے اشعار کہنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ خان آرزو نے اپنے تذکرے مجمع النفائس میں میر شمس الدین فقیر دہلوی کی بہت تعریف کی ہے لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ واقف کا مقابلہ فقیر دہلوی سے کیا جا سکتا ہے اور اس کو پنجاب کا شمس الدین کہنا چاہیے۔
قدرت اللہ نے بھی واقف کی شاعری کی بہت تعریف کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اس کے اشعار آبدار ہیں اور لولوئے شاہوار کی طرح ان میں چمک دمک پائی جاتی ہے۔ اس کے کلام میں نزاکتِ خیال، دل پذیری، سوز و گداز، فصاحت اور بلاغت پائی جاتی ہے۔
حاکم لاہوری کا بیان ہے کہ واقف کے دیوان میں قریباً چھ سات ہزار اشعار ہوں گے۔ اس نے قصیدے بھی کہے ہیں۔ اس کی ترجیع بند فصاحت اور درد کے کمال پر ہے۔ ایسی ترجیع بند قدماء میں سے کم ہی لوگوں نے کہی ہے۔ غزل تو اس کی خاص چیز ہے۔ اس نے رباعیاں بھی بہت خوب کہی ہیں۔ اس کے اشعار ایسے ہیں جو قاری کے دل پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہتے۔ اس کے کلام کی پختگی اور استادی درجۂ کمال پر ہے۔ اس نے خود اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اس کی شاعری نہیں بلکہ نالے اور آہیں ہیں۔ جس شاعر کا دل جتنا زیادہ غمناک اور پُرجوش ہو گا اس کی شاعری میں اسی قدر بلندی، اثر اور لطف پایا جائے گا۔
حاکم لاہوری رقم طراز ہے کہ واقف نہایت پرہیزگار اور سنتِ نبوی کی دل و جان سے پیروی کرنے والا تھا۔ وہ لوگوں سے کم ملتا تھا مگر غرور سے خالی تھا۔ اس کی شخصیت میں بے نیازی، آزادی اور دل کی امیری پائی جاتی ہے۔ اپنے عہد میں وہ دوستی اور خلوص میں ممتاز تھا۔ اس کی باتوں میں نرمی اور کم گوئی اس کی خاص صفت ہے حالانکہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے خصائل ایسے نہیں تھے۔ حاکم لاہوری نے لکھا ہے کہ وہ اس کے اعلیٰ اخلاق اور اخلاص کی وجہ سے اس کا غلام ہو گیا تھا۔ واقف حاکم لاہوری کے دکن اور سورت کے سفر میں ساتھ تھا اور سورت ہی سے حاکم فریضۂ حج کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔ حاکم نے اس موقع پر واقف کو اپنے دل میں دعا سے یاد کیا تھا کہ اللہ اس کو سلامتی کے ساتھ وطن پہنچائے اور اس کو بھی خانۂ کعبہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ مبارک کی زیارت سے نوازے۔ قدرت اللہ نے اپنے تذکرے میں بھی حاکم لاہوری اور واقف کے سفرِ دکن اور سورت کا ذکر کیا ہے۔ ہندی نے لکھا ہے کہ واقف کے دیوان میں قریباً دس ہزار اشعار ہوں گے۔ قدرت اللہ نے لکھا ہے کہ واقف نے ۱۱۹۵ھ میں وفات پائی۔
(ڈاکٹر محمد عرفان کی کتاب 'احوال و افکار و آثارِ شاہ فقیراللہ آفریں لاہوری' سے ماخوذ)
واقف لاہوری کا دیوان یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
https://archive.org/details/DivanEWaqifLahoriFarsi
محمد وارث سید عاطف علی