فاروق درویش - " نہ جُنوں میں تشنگی ہے، نہ وصالِ عاشقانہ "

طارق شاہ

محفلین
غزل
فاروق درویش
نہ جُنوں میں تشنگی ہے، نہ وصالِ عاشقانہ
مِری زندگی کا شاید، یہیں تھم گیا زمانہ
نہ صدا ہے محْرموں کی، نہ نظر وہ ساحِرانہ
نہ وفا ہے دوستوں کی، نہ عطائے دِلبرانہ
مِرے ہجْر کے فسانے، ہیں مکاں سے لامکاں تک
نہ چمَن، نہ گُل، نہ بُلبُل، نہ بہار و آب و دانہ
مِرے غم کدے کی شامیں، ہیں تِرے بِنا غرِیباں
ہے مِزاجِ شب بھی کافر، تِرا غم بھی قاتلانہ
میں جو تھک گیا سفر میں، مِرے آبلوں نے چھیڑا
وہی راگِ دشت و صحرا، بہ نوائے تازیانہ
یہ مُنافقت کی بستی ہے کہ دَورمصْلحَت کا
جو نقابِ زرْق اَوڑھے، ہے جہانِ کافرانہ
پسِ مرْگ خامشی یہ، ہے حلیفِ دستِ ظُلمَت
تِری چُپ ہے تیری قاتل، کہ مزاجِ بُذدِلانہ
مِرے طرزِحق نوائی، پہ ہے اعتراض اُن کو
جو صدائےعاشقاں کو، کہیں فقرِمُشرکانہ
یہ کمالِ دِل فریبی ہے تِرے سُخن میں درویش
جو فقیر بن کے چھیڑا، ہے رباب خُسْروانہ
فاروق درویش
 

طارق شاہ

محفلین
لاجواب کلام، اللہ میرے سر کے کلام کو شیئر کرنے والے کو سلامت رکھے
آمین! اللہ لکھنے والے اور تمام پڑھنے والوں (بشمول آپک کے) کو بھی سلامت اور خوش رکھے۔

سیدہ صاحبہ ! اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں
بالا بحر میں غزل کی تلاش نے علامہ اقبال کی، اور درویش صاحب کی اس غزل تک رسائی دی (دونوں غزلیں یہاں پیش کردیں)
تشکّر ایک بار پھر سے
بہت خوش رہیں
 
Top