سید انور محمود
محفلین
تاریخ:20 مارچ، 2017
الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار کی یہ پہلی گرفتاری نہیں تھی۔اس سے پہلے 22 اگست ہی کی رات کو انہیں اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے کراچی پریس کلب سےگرفتار کیا تھا ، فاروق ستار کراچی پریس کلب میں ایم کیو ایم کے بانی کی پاکستان مخالف تقریرسے اپنی لاتعلقی کا اعلان کرنے آئے تھے اور وہ رینجرز والوں سے صرف چند جملے ادا کرکے ان کےساتھ جانے کا کہہ رہے تھے لیکن رینجرز اہلکاروں نے بدتمیزی کی حدتک انہیں اس کی اجازت نہ دی اوران کے ساتھ خواجہ اظہار الحسن کو بھی گرفتار کرکے لے گئے۔ اگلے دن دوپہر کے وقت دونوں کو رہا کردیا گیا۔ 23 اگست 2016 کی سہ پہرکو ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انکے ساتھ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت موجود تھی۔فاروق ستار نے پریس کا نفرنس کرتے ہوئےایک دن پہلے کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ سے پاکستان مخالف نعرئے اور میڈیا ہائوسز پر کئے جانے والے حملوں پر معذرت کرتے ہوئے الطاف حسین کی تقریر سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔ فاروق ستار کا مزید کہنا تھا کہ ہم ہی ایم کیو ایم ہیں، اب ہم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو پاکستان سے چلائیں گے، کارکن یا قائد کو پاکستان مخالف نعرہ نہیں لگانے دیں گے۔ان کے اس بیان کی پریس کانفرنس میں موجود ہر شخص نے بھرپور تائید کی اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے پرجوش نعرئے لگائے، ایم کیو ایم جو پہلے ہی تین حصوںمیں بٹ چکی تھی ، الطاف حسین جس ایم کیو ایم کی قیادت کررہے تھے ان کی22 اگست کی تقریر کے بعد دو حصوں میں بٹ گئی ، اب ایک گروپ ایم کیو ایم (لندن) جبکہ دوسرا گروپ ایم کیو ایم (پاکستان ) کہلاتا ہے۔
کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے میڈیا نمائندوں کو ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ 22 اگست 2016 کو الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر میں سہولت کاری کے الزام میں پولیس کو مطلوب تھے۔ دوسری جانب فاروق ستار کی گرفتاری سے متعلق سندھ حکومت کے مبہم بیان میں کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ کو پولیس نے گرفتار ہی نہیں کیا، جب پولیس فاروق ستار کو گرفتار کرنے گئی تو وہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ ترجمان سندھ حکومت نے یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی مداخلت پر فاروق ستار کو رہا کیا گیا ہے تاہم اگر ان کی جانب سے اشتعال انگیزتقریر کے مقدمے میں ضمانت نہ کرائی گئی تو پولیس کے پاس گرفتاری کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ فاروق ستار کو گرفتار کرنے کے بعد چاکیواڑہ تھانے میں رکھا گیا جبکہ جس مقدمہ میں ان کوگرفتار کیا گیا تھا وہ آرٹلری تھانہ صدر کے علاقے میں درج ہے جو صدر کے علاقے میں ہے۔ چاکیواڑہ تھانہ لیاری کے علاقے میں واقع ہے، مقصد پولیس اور حکومت کا ایم کیو ایم کے حامیوں میں خوف پیدا کرنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم کے حامی چاکیواڑہ تھانے آتے ہیں تو ایم کیو ایم اور پیپلز کے حامیوں میں ٹکراو ہوسکتا ہے، ایک نااہل حکومت سے اس طرح کے عمل اور بیانات ہی کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس موقعہ پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے پاس پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے ہم سیاسی بردباری سے کام لیں گے، کوئی اسے ہماری بزدلی نہ سمجھے‘‘۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری اور رہائی ایسے موقع پر عمل میں آئی تھی جب ایم کیو ایم اگلے دن پارٹی کا سالانہ یوم تاسیس منانے کی تیاریوں میں مصروف تھی اور پارٹی کے عارضی مرکز پی آئی بی کالونی میں کارکنان بڑی تعداد میں ان تیاریوں میں مصروف تھے، اگر اس موقعہ پر ایم کیو ایم کے رہنما تحمل سے کام نہ لیتے تو شاید فاروق ستار کی گرفتاری ایک بڑئے احتجاج اور ایک بڑئے ہنگامے کا سبب بن جاتی۔اپنی رہائی کے بعد ڈاکٹرفاروق ستار کا کہنا تھا کہ مائنس ون پر اکتفا نہیں کیا جارہا اور بات اس سے آگے جارہی ہے، ایم کیو ایم (پاکستان) نے 23 اگست 2016 کو غیرمعمولی اقدام کیا اور پاکستان و پاکستان کی سیاست کے لئے کھڑے ہوئے۔انھوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان جھوٹے مقدمات کو ختم کیا جائے، اور ہمیں بھی سیاست سے نہ روکا جائے۔آج پورا کراچی کوڑئے کا ڈھیر بناہوا ہے، مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کراچی کے ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کررہی ہے جبکہ دوسری طرف مردم شماری کے بعد آیندہ انتخابات میں لازمی کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بڑھینگیں۔دو ہزار اٹھارہ انتخابات کا سال ہے لہذا پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اورپاک سر زمین پارٹی کے رہنماوں کے بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ سب کے سب کراچی کی نشستوں پر قابض ہونے کے لیے بے چین ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی کے مسائل پر کوئی کچھ نہیں بول رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے ہمدردوں کا کہنا ہے کہ ریاست کا برتاو ایم کیو ایم کے ساتھ کچھ اس طرح کا ہے کہ ’’جب دل چاہا بازو سے کھنچتے لے گئے، جب دل چاہا بیچ سڑک پر روک کر جامہ تلاشی لیتے دیکھے گئے اور جب دل چاہا راہ چلتے گرفتار کرلیئے گئے‘‘۔ اگر آپ کوڈاکٹر فاروق ستار کو صرف یہ کہنا تھا کہ وہ 22 اگست کے مقدمے میں اپنی ضمانت کروالیں تو سندھ حکومت کا کوئی بھی اہلکار وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے ان کو یہ پیغام پہنچا سکتا تھا۔ گرفتاری کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما کے ساتھ۔
فاروق ستار کی گرفتاری کا ڈرامہ کیوں؟
تحریر: سید انور محمود
متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے، ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی میں 25 اور صوبہ سندھ میں 51 صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں، اس کے علاوہ سینٹ میں 8 سینٹرز ہیں۔ اس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستارہیں جو خود بھی ایم این اے ہیں ان کو 17 اور 18 مارچ کی درمیانی شب کو پولیس نے ڈرامائی انداز میں گرفتار کرنے کے بعد رہا کردیا۔ پولیس فاروق ستار کو گرفتار کرکے چاکیواڑہ تھانے لے گئی جہاں سے انہیں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں رہا کردیا گیا۔ پولیس کے کہنے کے مطابق فاروق ستار کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی کراچی پریس کلب کے سامنے 22 اگست 2016 کی اس پاکستان مخالف تقریر کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا جس میں الطاف حسین نے پاکستان، اس وقت کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے علاوہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کی اور اس کے بعد پاکستان مخالف نعرئےنہ صرف خود لگائے بلکہ پنڈال سے بھی پاکستان مخالف نعرئے لگوائے۔ الطاف حسین کی پیر 22 اگست 2016 کی تقریر سے ایم کیو ایم کو شدید نقصان پہنچا ، ایم کیو ایم کے وہ رہنما جو الطاف حسین کی ہر بری سے بری تقریر کا دفاع کرتے تھے وہ بھی اس تقریر کی حمایت نہیں کرپائے، الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر نے ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچایا، 12 مئی کے بعد اب 22 اگست بھی ایم کیو ایم کےلیے ایک برا دن بن گیا ہے۔تحریر: سید انور محمود
الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار کی یہ پہلی گرفتاری نہیں تھی۔اس سے پہلے 22 اگست ہی کی رات کو انہیں اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے کراچی پریس کلب سےگرفتار کیا تھا ، فاروق ستار کراچی پریس کلب میں ایم کیو ایم کے بانی کی پاکستان مخالف تقریرسے اپنی لاتعلقی کا اعلان کرنے آئے تھے اور وہ رینجرز والوں سے صرف چند جملے ادا کرکے ان کےساتھ جانے کا کہہ رہے تھے لیکن رینجرز اہلکاروں نے بدتمیزی کی حدتک انہیں اس کی اجازت نہ دی اوران کے ساتھ خواجہ اظہار الحسن کو بھی گرفتار کرکے لے گئے۔ اگلے دن دوپہر کے وقت دونوں کو رہا کردیا گیا۔ 23 اگست 2016 کی سہ پہرکو ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انکے ساتھ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت موجود تھی۔فاروق ستار نے پریس کا نفرنس کرتے ہوئےایک دن پہلے کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ سے پاکستان مخالف نعرئے اور میڈیا ہائوسز پر کئے جانے والے حملوں پر معذرت کرتے ہوئے الطاف حسین کی تقریر سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔ فاروق ستار کا مزید کہنا تھا کہ ہم ہی ایم کیو ایم ہیں، اب ہم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو پاکستان سے چلائیں گے، کارکن یا قائد کو پاکستان مخالف نعرہ نہیں لگانے دیں گے۔ان کے اس بیان کی پریس کانفرنس میں موجود ہر شخص نے بھرپور تائید کی اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے پرجوش نعرئے لگائے، ایم کیو ایم جو پہلے ہی تین حصوںمیں بٹ چکی تھی ، الطاف حسین جس ایم کیو ایم کی قیادت کررہے تھے ان کی22 اگست کی تقریر کے بعد دو حصوں میں بٹ گئی ، اب ایک گروپ ایم کیو ایم (لندن) جبکہ دوسرا گروپ ایم کیو ایم (پاکستان ) کہلاتا ہے۔
کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے میڈیا نمائندوں کو ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ 22 اگست 2016 کو الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر میں سہولت کاری کے الزام میں پولیس کو مطلوب تھے۔ دوسری جانب فاروق ستار کی گرفتاری سے متعلق سندھ حکومت کے مبہم بیان میں کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ کو پولیس نے گرفتار ہی نہیں کیا، جب پولیس فاروق ستار کو گرفتار کرنے گئی تو وہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ ترجمان سندھ حکومت نے یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی مداخلت پر فاروق ستار کو رہا کیا گیا ہے تاہم اگر ان کی جانب سے اشتعال انگیزتقریر کے مقدمے میں ضمانت نہ کرائی گئی تو پولیس کے پاس گرفتاری کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ فاروق ستار کو گرفتار کرنے کے بعد چاکیواڑہ تھانے میں رکھا گیا جبکہ جس مقدمہ میں ان کوگرفتار کیا گیا تھا وہ آرٹلری تھانہ صدر کے علاقے میں درج ہے جو صدر کے علاقے میں ہے۔ چاکیواڑہ تھانہ لیاری کے علاقے میں واقع ہے، مقصد پولیس اور حکومت کا ایم کیو ایم کے حامیوں میں خوف پیدا کرنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم کے حامی چاکیواڑہ تھانے آتے ہیں تو ایم کیو ایم اور پیپلز کے حامیوں میں ٹکراو ہوسکتا ہے، ایک نااہل حکومت سے اس طرح کے عمل اور بیانات ہی کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس موقعہ پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے پاس پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے ہم سیاسی بردباری سے کام لیں گے، کوئی اسے ہماری بزدلی نہ سمجھے‘‘۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری اور رہائی ایسے موقع پر عمل میں آئی تھی جب ایم کیو ایم اگلے دن پارٹی کا سالانہ یوم تاسیس منانے کی تیاریوں میں مصروف تھی اور پارٹی کے عارضی مرکز پی آئی بی کالونی میں کارکنان بڑی تعداد میں ان تیاریوں میں مصروف تھے، اگر اس موقعہ پر ایم کیو ایم کے رہنما تحمل سے کام نہ لیتے تو شاید فاروق ستار کی گرفتاری ایک بڑئے احتجاج اور ایک بڑئے ہنگامے کا سبب بن جاتی۔اپنی رہائی کے بعد ڈاکٹرفاروق ستار کا کہنا تھا کہ مائنس ون پر اکتفا نہیں کیا جارہا اور بات اس سے آگے جارہی ہے، ایم کیو ایم (پاکستان) نے 23 اگست 2016 کو غیرمعمولی اقدام کیا اور پاکستان و پاکستان کی سیاست کے لئے کھڑے ہوئے۔انھوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان جھوٹے مقدمات کو ختم کیا جائے، اور ہمیں بھی سیاست سے نہ روکا جائے۔آج پورا کراچی کوڑئے کا ڈھیر بناہوا ہے، مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کراچی کے ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کررہی ہے جبکہ دوسری طرف مردم شماری کے بعد آیندہ انتخابات میں لازمی کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بڑھینگیں۔دو ہزار اٹھارہ انتخابات کا سال ہے لہذا پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اورپاک سر زمین پارٹی کے رہنماوں کے بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ سب کے سب کراچی کی نشستوں پر قابض ہونے کے لیے بے چین ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی کے مسائل پر کوئی کچھ نہیں بول رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے ہمدردوں کا کہنا ہے کہ ریاست کا برتاو ایم کیو ایم کے ساتھ کچھ اس طرح کا ہے کہ ’’جب دل چاہا بازو سے کھنچتے لے گئے، جب دل چاہا بیچ سڑک پر روک کر جامہ تلاشی لیتے دیکھے گئے اور جب دل چاہا راہ چلتے گرفتار کرلیئے گئے‘‘۔ اگر آپ کوڈاکٹر فاروق ستار کو صرف یہ کہنا تھا کہ وہ 22 اگست کے مقدمے میں اپنی ضمانت کروالیں تو سندھ حکومت کا کوئی بھی اہلکار وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے ان کو یہ پیغام پہنچا سکتا تھا۔ گرفتاری کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما کے ساتھ۔