محمل ابراہیم
لائبریرین
جناب شافع صاحب وارد ہوئے تو میری ایک غزل پر اس دادخوانی کے ساتھ "واہ بھائی آپ کی شاعری کمال کی ہوتی ہے یوں ہی سناتے رہیۓ"
یہ تو ٹھیک تھا مگر " لفظ بھائی" ذرا مشکل سے حلق سے اترا لیکن میرے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ بکھر گئی ایسا اس لئے کیوں کہ میرے ساتھ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا عموماً میری تحریریں پڑھنے والے مجھے اسی طرح کے ٹائٹل کے ساتھ داد دیا کرتے تھے۔۔۔۔جناب بہت خوب،صاحب آپ جان محفل ہیں۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
شاید یہ میرے نام کے سائیڈ ایفیکٹس تھے جو کہ بہر طور مجھے جھیلنے ہی تھے۔
یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی وہ داد دے کر اپنی راہ میں داد لے کر اپنی راہ،نہایت سرسری سی ملاقات تھی۔
مگر کچھ ہی دنوں کے بعد شافع صاحب کا پیغام مجھے ملتا ہے کہ بھائی آپ کے پاس اگر اُردو شاعری پر کوئی آرٹیکل ہو تو ارسال کریں۔
میں نے پورے چوبیس گھنٹے کا وقت لیا کہ انہیں آرٹیکل ارسال کروں یا نہ کروں۔
مگر وہ تھیں کہ بار بار پریشان کئے جاتی تھیں ارے یار مہوش بھیج دے نہ شافع کو اس کا مطلوب تُجھے اس سے کیا غرض کہ طالب کون ہے ؟
اب کی بار میں نے ان کی طرف ڈائری سے سر اٹھا کر پوری توجہ سے دیکھا اُن کی گہری آنکھوں میں درد تھا،ایک کرب جو میں نے صاف محسوس کیا۔
وہ ملتجی نگاہیں مجھے کئی صدیاں پیچھے لے جاتی ہیں جہاں میں نے شاہانہ لباس میں ملبوس ایک ملکہ کو بڑی نزاکت اور شان و شوکت کے ساتھ تخت شاہی پر جلوہ افروز پایا۔
جو از سر تا پا حسن کا مرقع تھی۔لمبے،گھنے،سیاہ اور چمکیلے بال کہ سنبل بھی شرما جائے،آنکھیں جیسے جھیل میں کھلتا ہوا کنول اور لب جیسا کہ میؔر مرحوم فرما گئے؎
نازکی اس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
قد و قامت ،رنگ و روپ سبھی بے مثال جس کی تعریف مجھ خاکسار سے بیان ہو ہی نہیں سکتی۔طرز و ادا ،آداب نشست و برخواست اف میں تو واری گئی؎
جی چاہتا ہے محفلِ جاناں میں بیٹھ کر
دن رات حُسنِ یار کا دیدار میں کروں
اس طلسمی دنیا کی سیر تب ختم ہوئی جب انہوں نے میرے آنکھوں کے سامنے ہوا میں اپنے ہاتھ لہرائے۔۔۔۔۔۔۔مہوش تم کہاں گم ہو؟؟؟
میں کچھ بولی نہیں صرف مسکرا دی جواباً وہ بھی مسکرائیں مگر اُن کی مسکراہٹ میں ایک درد تھا،ایک لاچاری، ایک بےبسی اور کچھ مجھ سے گِلہ بھی۔
میں نے اپنا سر اُن کے گداز کاندھے پر ٹکاتے ہوئے پوچھا وہ کون تھیں بی بی ؟
انہوں نے حیرت و افسوس کے ملے جلے انداز میں مجھ سے پوچھا مہوش تم نے واقعی اسے نہیں پہچانا؟
میں نے محض نفی میں سر ہلا دیا۔
انہوں نے کہا کیا اُن آنکھوں میں ذرا بھی شناسائی کے آثار تمہیں نہیں ملے؟
میں نے اب کی بار ذہن پر ذرا زور ڈالا مجھے محسوس ہوا گویا وہ گہری آنکھیں میں نے کہیں دیکھی ہیں۔۔۔مگر کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
کچھ ساعت کے بعد میں آپ ہے خود کو کوسنے لگی مہوش مانا کہ تم اپنے اطراف و جوانب سے بے خبر رہتی ہو مگر اتنی بھی کیا!!!!!!!
بی بی وہ آنکھیں تو آپ کی آنکھوں کے مشابہ تھیں۔میں بے ساختہ بول پڑی۔
اس بار اُن کے لبوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ پھیل گئی جیسے درمیانِ گفتگو وہ پہلی بار دل سے مسکرائی ہوں۔
مہوش ! انہوں نے مجھے مدھم آواز میں اپنی طرف متوجہ کیا وہ میر کی محبوبہ تھی۔
کیا؟؟ مجھے 370 وولٹ کا کرنٹ لگا اور میں اپنی نشست سے ایک بالشت اوپر اُچھل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔بی بی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔بی بی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میر کی محبوبہ تو آپ ہیں،وہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میرا جملہ ادھورا رہ گیا۔
میں نے اُن کا از سر تا پا جائزہ لیا ۔۔۔۔۔۔کہاں وہ شاہانہ ملبوسات ،وہ رونق کہاں یہ دریدہ حالی
وہ لمبے سیاہ سیدھے بال اب بے ترتیبی سے کندھوں اور پشت پر بکھرے پڑے تھے نہ اُن میں وہ چمک تھی نہ ہی خوبصورتی،وہ جھیل نما آنکھیں لبا لب بھری ہونے کے بعد بھی خشک لگ رہی تھیں۔۔۔۔
مجھے اب اُن کی ملتجی نگاہیں سمجھ آئیں انہوں نے بھی اسے بھاپ لیا اور گویا ہوئیں ۔
مہوش! شافع شاید میرے چاک دامن کو رفو کر سکے،اب میؔر،غالؔب،اقباؔل،فیضؔ،ساحؔر جیسے عشاق تو نہیں رہے مگر تم ڈھونڈو تو کم و بیش اُن جیسے مل بھی سکتے ہیں کسی اور نام کے ساتھ کسی اور روپ میں؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے ادھر نکلے
میں نے فوراً شافع کو اُردو شاعری پر آرٹیکل ارسال کئے۔
یہاں سے شافع اور میری گفتگو کا آغاز ہوا۔۔۔۔۔۔
بندہ پوچھ بیٹھا آپ پاکستان سے ہیں؟
نہیں۔۔۔۔۔میں نے جواب دیا۔
اگلا سوال تھا ہندوستان سے؟
اس بار میرا جواب ہاں تھا۔
باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا اور سر زمینِ علی گڑھ کا ذکر چھڑ گیا۔
میری جائے پیدائش،میری وہاں سے محبت،وہ گلیاں، وہ محلہ،وہ مکان ایک ایک کرکے سارے مناظر نظر کے سامنے گھومنے لگے۔میں نے خود کو اُن گلیوں اُن وادیوں میں سیر کرتا محسوس کیا۔شافع کے ساتھ یہ سفر خوبصورت رہا۔ہم نے ڈھیروں باتیں کیں اور اُس درمیان شافع کو یہ علم ہوا کہ جس کا تعلق اُس نے پڑوسی ملک سے جوڑا وہ تو اپنا سگا پڑوسی نکلا؎
وہ جسے چاند کہہ رہے تھے ہم
پاس پہنچے تو وہ زمیں نکلی
سلسلہ جس کا پاک سے جوڑا
اپنے ہی دیس کی مکیں نکلی
اس قرابت داری نے ہمیں اپنائیت کا احساس دلایا۔میرے ذہن نے شافع کا ایک تصوراتی خاکہ بنا ڈالا جس میں وہ ایک وجیہہ اور با وقار شخص کے روپ میں سامنے آیا۔زِندگی میں پہلی بار میں کسی مرد سے متاثر ہوئی۔مگر ان سارے تاثرات اور خوبصورت ملاقات کا سہرا بلا چوں چراں میؔر کی محبوبہ "جسے عرفِ عام میں اُردو زبان کہتے ہیں" کے سر جاتا ہے،جنہیں میں بی بی کہتی ہوں کیوں کہ اُن کی باوقار اور با رعب شخصیت نے اپنے لئے خود بہ خود یہ لفظ مجھ سے تجویز کرایا۔
جس کے سحر میں مسحور ہو کر فضل الحسن صرف حسرؔت رہ گئے،اسد اللہ خاں محض غالؔب تو نواب مِرزا خان عرفِ عام میں داؔغ کہلائے۔
ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔اس ساحرہ نے مجھے مہوش تو ایک نا آشنا کو شافع بنا ڈالا۔
از قلم سحؔر
یہ تو ٹھیک تھا مگر " لفظ بھائی" ذرا مشکل سے حلق سے اترا لیکن میرے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ بکھر گئی ایسا اس لئے کیوں کہ میرے ساتھ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا عموماً میری تحریریں پڑھنے والے مجھے اسی طرح کے ٹائٹل کے ساتھ داد دیا کرتے تھے۔۔۔۔جناب بہت خوب،صاحب آپ جان محفل ہیں۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
شاید یہ میرے نام کے سائیڈ ایفیکٹس تھے جو کہ بہر طور مجھے جھیلنے ہی تھے۔
یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی وہ داد دے کر اپنی راہ میں داد لے کر اپنی راہ،نہایت سرسری سی ملاقات تھی۔
مگر کچھ ہی دنوں کے بعد شافع صاحب کا پیغام مجھے ملتا ہے کہ بھائی آپ کے پاس اگر اُردو شاعری پر کوئی آرٹیکل ہو تو ارسال کریں۔
میں نے پورے چوبیس گھنٹے کا وقت لیا کہ انہیں آرٹیکل ارسال کروں یا نہ کروں۔
مگر وہ تھیں کہ بار بار پریشان کئے جاتی تھیں ارے یار مہوش بھیج دے نہ شافع کو اس کا مطلوب تُجھے اس سے کیا غرض کہ طالب کون ہے ؟
اب کی بار میں نے ان کی طرف ڈائری سے سر اٹھا کر پوری توجہ سے دیکھا اُن کی گہری آنکھوں میں درد تھا،ایک کرب جو میں نے صاف محسوس کیا۔
وہ ملتجی نگاہیں مجھے کئی صدیاں پیچھے لے جاتی ہیں جہاں میں نے شاہانہ لباس میں ملبوس ایک ملکہ کو بڑی نزاکت اور شان و شوکت کے ساتھ تخت شاہی پر جلوہ افروز پایا۔
جو از سر تا پا حسن کا مرقع تھی۔لمبے،گھنے،سیاہ اور چمکیلے بال کہ سنبل بھی شرما جائے،آنکھیں جیسے جھیل میں کھلتا ہوا کنول اور لب جیسا کہ میؔر مرحوم فرما گئے؎
نازکی اس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
قد و قامت ،رنگ و روپ سبھی بے مثال جس کی تعریف مجھ خاکسار سے بیان ہو ہی نہیں سکتی۔طرز و ادا ،آداب نشست و برخواست اف میں تو واری گئی؎
جی چاہتا ہے محفلِ جاناں میں بیٹھ کر
دن رات حُسنِ یار کا دیدار میں کروں
اس طلسمی دنیا کی سیر تب ختم ہوئی جب انہوں نے میرے آنکھوں کے سامنے ہوا میں اپنے ہاتھ لہرائے۔۔۔۔۔۔۔مہوش تم کہاں گم ہو؟؟؟
میں کچھ بولی نہیں صرف مسکرا دی جواباً وہ بھی مسکرائیں مگر اُن کی مسکراہٹ میں ایک درد تھا،ایک لاچاری، ایک بےبسی اور کچھ مجھ سے گِلہ بھی۔
میں نے اپنا سر اُن کے گداز کاندھے پر ٹکاتے ہوئے پوچھا وہ کون تھیں بی بی ؟
انہوں نے حیرت و افسوس کے ملے جلے انداز میں مجھ سے پوچھا مہوش تم نے واقعی اسے نہیں پہچانا؟
میں نے محض نفی میں سر ہلا دیا۔
انہوں نے کہا کیا اُن آنکھوں میں ذرا بھی شناسائی کے آثار تمہیں نہیں ملے؟
میں نے اب کی بار ذہن پر ذرا زور ڈالا مجھے محسوس ہوا گویا وہ گہری آنکھیں میں نے کہیں دیکھی ہیں۔۔۔مگر کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
کچھ ساعت کے بعد میں آپ ہے خود کو کوسنے لگی مہوش مانا کہ تم اپنے اطراف و جوانب سے بے خبر رہتی ہو مگر اتنی بھی کیا!!!!!!!
بی بی وہ آنکھیں تو آپ کی آنکھوں کے مشابہ تھیں۔میں بے ساختہ بول پڑی۔
اس بار اُن کے لبوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ پھیل گئی جیسے درمیانِ گفتگو وہ پہلی بار دل سے مسکرائی ہوں۔
مہوش ! انہوں نے مجھے مدھم آواز میں اپنی طرف متوجہ کیا وہ میر کی محبوبہ تھی۔
کیا؟؟ مجھے 370 وولٹ کا کرنٹ لگا اور میں اپنی نشست سے ایک بالشت اوپر اُچھل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔بی بی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔بی بی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میر کی محبوبہ تو آپ ہیں،وہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میرا جملہ ادھورا رہ گیا۔
میں نے اُن کا از سر تا پا جائزہ لیا ۔۔۔۔۔۔کہاں وہ شاہانہ ملبوسات ،وہ رونق کہاں یہ دریدہ حالی
وہ لمبے سیاہ سیدھے بال اب بے ترتیبی سے کندھوں اور پشت پر بکھرے پڑے تھے نہ اُن میں وہ چمک تھی نہ ہی خوبصورتی،وہ جھیل نما آنکھیں لبا لب بھری ہونے کے بعد بھی خشک لگ رہی تھیں۔۔۔۔
مجھے اب اُن کی ملتجی نگاہیں سمجھ آئیں انہوں نے بھی اسے بھاپ لیا اور گویا ہوئیں ۔
مہوش! شافع شاید میرے چاک دامن کو رفو کر سکے،اب میؔر،غالؔب،اقباؔل،فیضؔ،ساحؔر جیسے عشاق تو نہیں رہے مگر تم ڈھونڈو تو کم و بیش اُن جیسے مل بھی سکتے ہیں کسی اور نام کے ساتھ کسی اور روپ میں؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے ادھر نکلے
میں نے فوراً شافع کو اُردو شاعری پر آرٹیکل ارسال کئے۔
یہاں سے شافع اور میری گفتگو کا آغاز ہوا۔۔۔۔۔۔
بندہ پوچھ بیٹھا آپ پاکستان سے ہیں؟
نہیں۔۔۔۔۔میں نے جواب دیا۔
اگلا سوال تھا ہندوستان سے؟
اس بار میرا جواب ہاں تھا۔
باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا اور سر زمینِ علی گڑھ کا ذکر چھڑ گیا۔
میری جائے پیدائش،میری وہاں سے محبت،وہ گلیاں، وہ محلہ،وہ مکان ایک ایک کرکے سارے مناظر نظر کے سامنے گھومنے لگے۔میں نے خود کو اُن گلیوں اُن وادیوں میں سیر کرتا محسوس کیا۔شافع کے ساتھ یہ سفر خوبصورت رہا۔ہم نے ڈھیروں باتیں کیں اور اُس درمیان شافع کو یہ علم ہوا کہ جس کا تعلق اُس نے پڑوسی ملک سے جوڑا وہ تو اپنا سگا پڑوسی نکلا؎
وہ جسے چاند کہہ رہے تھے ہم
پاس پہنچے تو وہ زمیں نکلی
سلسلہ جس کا پاک سے جوڑا
اپنے ہی دیس کی مکیں نکلی
اس قرابت داری نے ہمیں اپنائیت کا احساس دلایا۔میرے ذہن نے شافع کا ایک تصوراتی خاکہ بنا ڈالا جس میں وہ ایک وجیہہ اور با وقار شخص کے روپ میں سامنے آیا۔زِندگی میں پہلی بار میں کسی مرد سے متاثر ہوئی۔مگر ان سارے تاثرات اور خوبصورت ملاقات کا سہرا بلا چوں چراں میؔر کی محبوبہ "جسے عرفِ عام میں اُردو زبان کہتے ہیں" کے سر جاتا ہے،جنہیں میں بی بی کہتی ہوں کیوں کہ اُن کی باوقار اور با رعب شخصیت نے اپنے لئے خود بہ خود یہ لفظ مجھ سے تجویز کرایا۔
جس کے سحر میں مسحور ہو کر فضل الحسن صرف حسرؔت رہ گئے،اسد اللہ خاں محض غالؔب تو نواب مِرزا خان عرفِ عام میں داؔغ کہلائے۔
ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔اس ساحرہ نے مجھے مہوش تو ایک نا آشنا کو شافع بنا ڈالا۔
از قلم سحؔر