محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اگر اس غزل کو اس بحر میں تبدیل کر دیا جائے تو ۔۔۔
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
استادِ محترم ۔ ایک شعوری کوشش جو شاید زیادہ کامیاب نہیں ہورہی؟وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت منکوح سو ہے
شک نہیں اس میں کہ پیاری ہے ہماری بیوی
’’وہ جو رکھتے تھے ہم اِک حسرتِ منکوح سو ہے‘‘
ہے رگ و پے میں سراپا میں وہی تو جاری
گنگناتی ہے جسے آج مری روح سو ہے
وہ تڑپنا، وہ پھڑکنا ، وہی اندازِ جنوں
جیسی کل تھی وہی اب حالتِ مذبوح سو ہے
اس زمیں کو مئے خونناب سے رنگین کیا
وہی مسجودِ خلائق،وہی ممدوح سو ہے
وہ جسے آج تلک ڈھونڈ نہ پائے عشاق
وہ کتابوں میں کہیں آج بھی مشروح سو ہے