انتہا
محفلین
فاقے میں روزہ
دہلوی تاج دارکے ایک کنبہ کی کہانی
خواجہ حسن نظامی١٨٥٧ کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں، خاص طور پر علما اور مغلیہ خاندان پر جو قیامت برپا کی وہ تاریخ کا المناک باب ہے۔ ہزاروں بے گناہ پھانسیوں کی بھینٹ چڑھادیے گئے اور شہزادیاں اور شہزادے کسمپرسی اور بے بسی کی اذیت ناک تصویر بن کر رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن کس طرح پورے کیے، اس کے بارے میں خواجہ حسن نظامی کی تحریر کردہ سچی کہانی۔ یہ تاریخ کا وہ عبرت کدہ ہے کہ جس سے سبق ملتا ہے کہ جو قومیں جفا کشی، علم و عمل اور اعلی اقدار چھوڑ کر عیش و عشرت کی دلدادہ ہوجاتی ہیں ان کا اور ان کے ورثا کا حشر پھر یہی ہوا کرتا ہے۔
خواجہ حسن نظامی١٨٥٧ کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں، خاص طور پر علما اور مغلیہ خاندان پر جو قیامت برپا کی وہ تاریخ کا المناک باب ہے۔ ہزاروں بے گناہ پھانسیوں کی بھینٹ چڑھادیے گئے اور شہزادیاں اور شہزادے کسمپرسی اور بے بسی کی اذیت ناک تصویر بن کر رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن کس طرح پورے کیے، اس کے بارے میں خواجہ حسن نظامی کی تحریر کردہ سچی کہانی۔ یہ تاریخ کا وہ عبرت کدہ ہے کہ جس سے سبق ملتا ہے کہ جو قومیں جفا کشی، علم و عمل اور اعلی اقدار چھوڑ کر عیش و عشرت کی دلدادہ ہوجاتی ہیں ان کا اور ان کے ورثا کا حشر پھر یہی ہوا کرتا ہے۔
جب دہلی زندہ تھی اور ہندستان کا دل کہلانے کا حق رکھتی تھی اور لال قلعہ پر تيموريوں کا آخری نشان لہرا رہا تھا، انہيں دنوں کا ذکر ہے کہ مرزا سليم بہادر (جو ابو ظفر بہادر شاہ کے بھائی تھے اور غدر سے پہلے ايک اتفاقی قصور کے سبب قيد ہو کر الٰہ آباد چلے گئے تھے) اپنے مردانہ مکان ميں بيٹھے ہوئے دوستوں سے بے تکلفانہ باتيں کر رہے تھے کہ اتنے ميں زنان خانہ سے ايک لونڈی باہر آئی اور ادب سے عرض کيا کہ حضور بيگم صاحبہ ياد فرماتی ہيں۔ مرزا سليم فورًا محل ميں چلے گئے اور تھوڑی دير ميں مغموم واپس آئے۔ ايک بے تکلف نديم نے عرض کيا :خير باشد مزاج عالی مکدر پاتا ہوں۔ مرزا نے مسکرار کر جواب ديا :نہيں کچھ نہيں بعض اوقات امّاں حضرت خوامخواہ ناراض ہوجاتی ہيں۔ کل شام کو افطاری کے وقت نتھن خان گويا گارہا تھا اور ميرا دل بہلا رہاتھا۔ اس وقت امّاں حضرت قرآن شريف پڑھا کرتی ہيں، ان کو يہ شورو غل ناگوار معلوم ہوا۔ آج ارشاد ہوا ہے کہ رمضان، رمضان گانے بجانے کی محفليں بند کر دی جائيں۔ بھلا ميں اس تفريحی عادت کو کيوں کر چھوڑ سکتا ہوں۔ ادب کے لحاظ سے قبول تو کرليا مگر اس کی پابندی سے جی اُلجھتا ہے حيران ہوں کہ يہ سولہ دن کيوں کر بسر ہوں گے۔مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کيا :حضور يہ بھی کوئی پريشان ہونے کی بات ہے شام کو افطاری سے پہلے جامع مسجد ميں تشريف لے جایا کریں عجب بہار ہوتی ہے۔ رنگ برنگ کے آدمی، طرح طرح کے جمگھٹے ديکھنے ميں آئيں گے۔ خدا کے دن ہيں خدا والوں کی بہار ديکھيے۔
مرزا نے اس صلاح کو پسند کيا اور دوسرے دن مصاحبوں کو لے جاکر جامع مسجد پہنچے۔ وہاں جا کر عجب عالم ديکھا۔ جگہ جگہ حلقہ بنائے لوگ بيٹھے ہيں، کہيں قرآن شريف کے دور ہو رہے ہيں، کہيں مسائل دين پر گفتگو ہورہی ہے۔ دو عالم کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرتے ہيں اور بيسيوں آدمی گرد ميں بيٹھے مزے سے سن رہے ہيں۔ کسی جگہ توجہ اور مراقبہ کا حلقہ ہے۔ کہيں کوئی صاحب وظائف ميں مشغول ہيں۔ الغرض مسجد ميں چاروں طرف اللہ والوں کا ہجوم ہے۔ مرزا کو يہ نظارہ بہت پسند آيا اور وقت بہت لطف سے کٹ گيا۔ اتنے ميں افطار کا وقت قريب آيا۔ سينکڑوں خوان افطاری کے ليے آنے لگے اور لوگوں ميں افطاریاں تقسيم ہونے لگیں۔ خاص محل سلطانی سے متعدد خوان مکلف چيزوں سے آراستہ روزانہ جامع مسجد ميں بھيجے جاتے تھے تاکہ روزہ داروں ميں افطاری تقسيم کی جا ئے۔ اسکے علاوہ قلعہ کی تمام بيگمات اور شہر کے سب امراء عليحدہ افطاری کے سامان بھيجتے تھے اس ليے ان خوانوں کی گنتی سينکڑوں تک پہنچ جاتی تھی۔ چونکہ ہر امير کوشش کرتا تھا کہ اس کا سامان افطاری دوسروں سے بڑھ کر رہے، اس ليے ريشمی رنگ برنگ کے خوان پوش اور ان پر مقيشی جھالريں ايک سے ايک بڑھ چڑھ کر ہوتی تھيں اور مسجد ميں ان کی عجب آرايش ہو جاتی تھی
مرزا کے دل پر اس دينی چرچے اور شان وشوکت نے بڑا اثر ڈالا اور اب وہ برابر روزانہ مسجد ميں آنے لگے۔
مرزا سليم کے ايک بھانجے مرزا شہروز نو عمری کے سبب اکثر اپنے ماموں کی صحبت ميں بے تکلف شريک ہوا کرتے تھے۔ ان کا بيان ہے کہ ايک تو وہ وقت تھا جو آج خواب و خيال کی طرح ياد آتا ہے اور ايک وہ وقت تھا آيا کہ دہلی زيرو زبر ہوگئی قلعہ برباد کر ديا گيا۔ اميروں کو پھانسياں مل گئیں، ان کے گھر اکھڑ گئے۔ ان کی بيگمات ماما گيری کرنے لگيں اور مسلمانوں کی سب شان وشوکت تاراج ہوگئی۔ اس کے بعد ايک دفعہ رمضان شريف کے مہينے ميں جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا کيا ديکھتا ہوں کہ جگہ جگہ چولھے بنے ہوئے ہيں سپاہی روٹياں پکا رہے ہيں، گھوڑوں کے دانے دلے جا رہے ہيں۔ گھاس کے انبار لگے ہوئے ہيں اور شاہجہان کی خوبصورت اور بے مثل مسجد اصطبل نظر آتی ہے اور پھر جب مسجد واگذشت ہوگئی اور سرکار نے اس کو مسلما نوں کے حوالے کر ديا تو رمضان ہی کے مہينے ميں پھر جانا ہوا۔ ديکھا کہ چند مسلمان ميلے کچيلے پيوند لگے کپڑے پہنے بيٹھے ہيں۔ دو چار قرآن شريف کا ورد کر رہے ہيں اور کچھ اسی پريشان حالی ميں بيٹھے وظيفہ پڑھ رہے ہيں۔ افطاری کے وقت چند آدميوں نے کجھوريں اور دال سویاں بانٹ دیں، کسی نے ترکاری کے قتلے تقسيم کر دئيے۔ نہ وہ اگلا سا سماں نہ وہ اگلی سی چہل پہل نہ وہ پہلی سی شان وشوکت، يہ معلوم ہوتا تھا کہ بے چارے فلک کے مارے چند لوگ جمع ہوگئے ہيں۔ انگريزی تعليم يافتہ مسلمان تو مسجد ميں نظر ہی کم آتے ہيں۔ غريب غرباء آئے تو ان سے رونق کيا خاک ہو سکتی ہے۔ پھر بھی غنيمت ہے کہ مسجد آباد ہے۔ اگر مسلما نوں کے افلاس کا يہی عا لم رہا تو آئندہ خبر نہيں کيا نو بت آئے۔
مرزا شہزور کی باتوں ميں بڑا درد اور اثر تھا۔ ايک دن ميں نے ان سے غدر کا قصہ اور تباہی کا فسانہ سنناچاہا۔ آنکھوں ميں آنسو بھر لائے اس کے بيان کرنے ميں عذر و مجبوری ظاہر کرنے لگے۔ ليکن جب ميں نے زيادہ اصرار کيا تو اپنی درد ناک کہانی اس طرح سنائی :
انگريزی توپوں اور سنگينوں نے ہمارے ہاتھ سے تلوار چھين لی، تاج سر سے اُتار ليا اور تخت پر قبضہ کر ليا۔ شہر ميں آتش ناک گوليوں کا مينہ برس چکا۔ سات پردوں ميں رہنے والياں بے چادر ہو کر بازار ميں اپنے وارثوں کی تڑپتی لاشوں کو ديکھنے نکل آئيں۔ چھوٹے بن باپ کے بچے ابّا ابّا پکارتے ہوئے بے يارو مددگار پھرنے لگے۔ حضور ظل سبحانی، جن پر ہم سب کا سہارا تھا، قلعہ چھوڑ کر باہر نکل گئے۔ اس وقت ميں نے بھی اپنی بوڑھی والدہ، کمسن بہن اور حاملہ بيوی کو ساتھ لے کر اور اُجڑے قافلہ کا سالار بن کر گھر سے کو چ کيا۔ ہم لوگ دور تھوں ميں سوار تھے۔ سيدھے غازی آباد کا رُخ کيا مگر بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ راستہ انگريزی لشکر کی جو لان گاہ بنا ہو ا ہے ا س لیے شاہدرہ سے واپس ہو کر قطب صاحب چلے اور وہاں پہنچ کر رات کو آرام کيا۔ اس کے بعد صبح آگے روانہ ہوئے۔ چھتر پور کے قريب گوجروں نے حملہ کيا اور سب سامان لوٹ ليا مگر اتنی مہر بانی کی کہ ہم کو زندہ چھوڑ ديا۔ لق ودق جنگل، تين عورتوں کا ساتھ اور عورتيں بھی کيسی ايک بڑھاپے سے لاچار دو قدم چلنا دشوار، دوسری حاملہ اور بيمار، تيسری دس برس کی معصوم لڑکی زارو نزار۔ عورتيں روتی تھيں اور بین کر کرکے رلاتی تھيں۔ ميرا کليجہ ان کے بين سے پھٹا جاتا تھا۔ والدہ کہتی تھيں الہٰی ہم کہاں جائيں، کس کا سہارا ڈھونڈھيں، ہمارا تاج وتخت لُٹ گيا، تو ٹوٹا بوريا اور امن کی جگہ تو دے، اس بيمار پيٹ والی کو کہاں لے کر بيٹھوں، اس معصوم بچی کو کس کے حوالے کروں، جنگل کے درخت بھی ہمارے دشمن ہيں، کہيں سايہ نظر نہيں آتا۔ بہن کی يہ کيفيت تھی کہ وہ سہمی ہوئی کھڑی تھی اور ہم سب کا منہ تکتی تھی۔ مجھ کو اس معصومانہ بے کسی پر بڑا ترس آتا تھا۔ آخر مجبور اً ميں نے عورتوں کو دلاسا ديا اور آگے چلنے کی ہمت بندھائی۔ گاؤں سامنے نظر آتا تھا۔ غريب عورتوں نے چلنا شروع کيا۔ والدہ صاحبہ قدم قدم پر ٹھوکريں کھاتی تھيں اور سر پکڑ کر بيٹھ جاتی تھيں اور جب وہ يہ کہتيں : ''تقدير ان کو ٹھو کريں کھلواتی ہے جو تاج وروں کے ٹھوکريں مارتے تھے۔ قسمت نے ان کو بے بس کر ديا جو بے کسوں کے کام آتے تھے۔ ہم چنگيز کی نسل ہيں جس کی تلوار سے زمين کانپتی تھی۔ ہم تيمور کی اولاد ہيں جو ملکوں کا اور شہر ياروں کا شاہ تھا۔ ہم شاہجہاں کے گھر والے ہيں جس نے ايک قبر پر جواہر نگار بہار دکھا دی اور دنيا ميں بے نظير مسجد دہلی کے اندر بنادی۔ ہم ہندوستان کے شہنشاہ کے کنبے والے ہيں۔ ہم عزت والے تھے زمين ميں ہميں کيوں ٹھکانا نہيں ملتا، وہ کيوں سر کشی کرتی ہے۔ آج ہم پر مصيبت ہے آج ہم پر آسمان روتا ہے۔ ''تو بدن پر رو نگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ القصہ بہ ہزار دقت ودشواری گرتے پڑتے گاؤں ميں پہنچے۔ يہ گاؤں ميواتيوں کا تھا۔ انھوں نے ہماری خاطر کی اور اپنی چوپاڑ ميں ہم کو ٹھہرايا۔ کچھ روز تو ان مسلمان گنواروں نے ہمارے کھانے پينے کی خبر رکھی اور چو پاڑ ميں ہم کو ٹھہرائے رکھا۔ ليکن کب تک يہ بار اٹھاسکتے تھے، اُکتا گئے اور ايک دن مجھ سے کہنے لگے کہ مياں جی چوپاڑ ميں ايک بارات آنے والی ہے، تو دوسرے چھپر ميں چلا جا اور رات دن ٹھالی ( بيکار ) بيٹھے کيا کرے ہے، کچھ کام کيوں نہيں کرتا۔ ميں نے کہا : بھائی جہاں تم کہو گے وہيں جا پڑيں گے، ہميں چوپاڑ ميں رہنے کی ہوس نہيں، جب فلک نے عالی شان محل چھين ليے تو اس کچے مکان پر ہم ضد کيا کريں گے اور رہی کام کرنے کی بات سو ميرا جی تو خودگھبراتا ہے، خالی بيٹھے ہوئے طبيعت اُکتائی جاتی ہے، مجھ کو کوئی کام بتاؤ۔ ہو سکے گا تو آنکھوں سے کروں گا۔ ان کا چودھری بولا : ہم نے کے بيرا (ہميں کيا خبر) کہ تو کے کام (کيا کام ) کر سکے ہے۔ ميں نے جواب ديا : ميں سپاہی زادہ ہوں تيغ تفنگ چلانا ميرا ہنر ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی کام نہيں جانتا گنوار ہنس کر کہنے لگے :نہ بابا يہاں تو ہل چلانا ہوگا، گھاس کھودنی پڑے گی، ہم نے تلوار کے ہنر کيا کرنے ہيں۔ گنواروں کے اس جواب سے ميری آنکھوں ميں آنسو آگئے اور جواب ديا کہ بھا ئيو مجھ کو تو ہل چلانا اور گھاس کھودنی نہيں آتی۔ مجھ کو روتا ديکھ کر گنواروں کو رحم آگيا اور بولے : اچھا تو ہمارے کھيت کی رکھوالی کيا کر اور تيری عورتيں ہمارے گاؤں کے کپڑے سی ديا کريں۔ فصل پر تجھ کو اناج دے ديا کريں گے جو تجھ کو کافی ہوگا چنانچہ يہی ہوا کہ ميں سارا دن کھيت پر جانور اڑايا کرتا تھا اور گھر ميں عورتيں کپڑے سيتی تھيں ايک دفعہ ايسا ہوا کہ بھادوں کا مہينہ آيا اور گاؤں ميں سب کو بخار آنے لگا، ميری اہليہ اور بہن کو بھی بخار نے آن دبايا۔ وہ گاؤں وہاں دوا اور حکيم کا کيا ذکر خود لوٹ پيٹ کر اچھے ہو جاتے ہيں۔ مگر ہم کو دواؤں کی عادت تھی سخت تکليف اُٹھانی پڑی اسی حالت ميں ايک دن اس زور کی بارش ہوئی کہ جنگل کا نالہ چڑ ھ آيا اورگاؤ ں ميں کمر کمر پانی ہوگيا گاؤں والے تو اس کے عادی تھے ليکن ہماری حالت اس طوفان کے سبب مرنے سے بدتر ہوگئی چونکہ پانی ايک دفعہ ہی رات کے وقت گھس آيا تھا اس ليے ہماری عورتوں کی چارپائياں بالکل غرق آب ہوگئيں۔ آخر بڑی مشکل سے چھپر کی بليوں ميں دو چار پائياں اڑا کر عورتوں کو ان پر بٹھا يا پانی گھنٹہ ميں اُتر گيا مگر غضب يہ ہوا کہ کھانے کا اناج اور اوڑھنے بچھانے کے کپڑے تر کر گيا۔ پچھلی رات ميری بيوی کے دردزہ شروع ہوا اور ساتھ ہی جاڑے سے بخار بھی آيا۔ اس وقت کی پريشانی بس بيان کرنے کے قابل نہيں۔ اندھيرا گھٹ، مينہ کی جھڑی، کپڑے سب گيلے، آگ کا سامان ناممکن۔ حيران تھے الہٰی کيا انتظام کيا جائے۔ درد بڑھنا شروع ہوا اور مريضہ کی حالت نہايت ابتر ہوگئی۔ يہاں تک کہ تڑپنے لگی اور تڑپتے تڑپتے جان دے دی۔ بچہ پيٹ ہی ميں رہا۔
چونکہ وہ ساری عمر ناز و نعمت ميں پلی تھيں، غدر کی مصيبتيں ہی ان کی ہلاکت کے ليے کافی تھيں۔ خير اس وقت تو جان بچ گئی مگر يہ بعد کا جھٹکا ايسا بڑا لگا کہ جان لے کرگيا۔ صبح ہوگئی، گاؤں والوں کو خبر ہوئی تو انھوں نے کفن و غيرہ منگواديا اور دوپہر تک يہ محتاج شہزادی گور غريباں ميں ہميشہ کے ليے جا سوئی۔ اب ہم کو کھانے کی فکر ہوئی کيوں کہ اناج سب بھيگ کر سڑگيا تھا گاؤں والوں سے بھی مانگتے ہوئے لحاظ آتا تھا وہ بھی ہماری طرح اسی مصيبت ميں گرفتار تھے۔ تاہم بے چارے گاؤں کے چودھری کو خود ہی خيال ہوا اور اس نے قطب صاحب سے ايک روپيہ کا آٹا منگوا ديا۔ وہ آٹا نصف کے قريب خرچ ہوا ہوگا کہ رمضان شريف کا چاند نظر آيا۔ والدہ صاحبہ کا دل بہت نازک تھا، وہ ہر وقت گزشتہ زمانہ کو ياد کيا کرتی تھيں، رمضان کا چاند ديکھ کر انھوں نے ايک ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہو گئيں۔ ميں سمجھ گيا کہ ان کو اگلا وقت ياد آگيا ہے۔ تسلی کی باتيں کرنے لگا جس سے ان کو کچھ ڈھارس ہوگئی ۔
چار پانچ دن تو آرام سے گزر گئے مگر جب آٹا ختم ہو چکا تو بڑی مشکل درپيش ہوئی سوال کرتے ہوئے شرم آتی تھی اور پاس ايک کوڑی نہ تھی۔ شام کو پانی سے روزہ کھولا، بھوک کے مارے کليجہ منہ کو آتا تھا۔ والدہ صاحبہ کی عادت تھی کہ اس قسم کی تکليف کے وقت بيان کرکے رويا کرتی تھيں مگر آج بڑے اطمينان سے خاموش تھيں۔ ان کی خاموشی و اطمينان سے ميرے دل کو بھی سہارا ہوا اور چھوٹی بہن کو جا کے دیکھا چہرے پر بھوک کے مارے ہوائياں اُڑ رہی تھيں، دلاسا دينے لگا۔ وہ معصوم بھی ميرے سمجھانے سے نڈھال ہو کر چارپائی پر جا پڑی اور تھوڑی دير ميں سوگئی۔ بھوک ميں نيند کہاں آتی ہے بس ايک غوطہ سا تھا۔ اس غوطہ اور ناتوانی کی حالت ميں سحری کا وقت آگيا۔ والدہ صاحبہ اٹھيں اور تہجد نماز کے بعد جن درد ناک الفاظ ميں انھوں نے دعا مانگی ان کا نقل کرنا محال ہے۔ حاصل مطلب يہ ہے کہ انھوں نے بارگاہ الہٰی ميں عرض کيا :''ہم نے ايسا کيا قصور کيا ہے جس کی سزا يہ مل رہی ہے رمضان کے مہينے ميں ہمارے گھر سے سينکڑوں محتاجوں کو کھانا ملتا تھا اور آج ہم خود دانے دانے کو محتاج ہيں اور روزے پر روزہ رکھتے ہيں۔ خداوند اگر ہم سے قصور ہوا ہے تو اس معصوم بچی نے کيا خطا کی جس کے منہ ميں کل سے ايک کھيل اڑ کر نہيں گئی'' ۔
دوسرا دن بھی يوں ہی گزر گيا اور فاقہ ميں روزہ پر روزہ رکھا۔ شام کے قريب چودھری کا آدمی دودھ اور ميٹھے چاول لايا اور بولا آج ہمارے نياز تھی، يہ اس کا کھانا ہے اور پانچ روپيہ زکوٰۃ کے ہيں۔ ہر سال بکريوں کی زکوٰۃ ميں بکری ديا کرتے ہيں مگر اب کے نقد دے ديا ہے۔ يہ کھانا اور روپے مجھ کو ايسی نعمت معلوم ہوئی گويا بادشاہت مل گئی۔ خوشی خوشی والدہ کے آگے سارا قصہ کہا۔ کہتا جاتا تھا اور خدا کا شکرانہ بھيجتا جاتا تھا مگر يہ خبر نہ تھی کہ گردش فلاکت نے مرد کے خيال پر تو اثر ڈال ديا ليکن عورت ذات کی توں اپنی قديمی غيرت داری پر قائم ہے۔ چنانچہ ميں نے ديکھا کہ والدہ کا متغير ہوگيا۔ باوجود فاقہ کی ناتوانی کے انھوں نے تيور بدل کر کہا :تف ہے تيری غيرت پر، خيرات اور زکوٰۃ لے کر آيا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ ارے اس سے مرجانا بہتر تھا۔ اگرچہ ہم مٹ گئے مگر ہماری حرارت نہيں مٹی۔ ميدان ميں نکل کر مر جانا يا مار ڈالنا اور تلوار کے زور سے روٹی لينا ہمارا کام ہے، صدقہ خوری ہمارا شيوہ نہيں۔
والدہ کی ان باتوں سے مجھے پسينہ آگيا اور شرم کے مارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ چاہا کہ اُٹھ کر يہ چيزيں واپس کر آؤں مگر والدہ نے روکا اور کہا :خدا کو يہی منظور ہے تو ہم کيا کريں سب کچھ سہنا ہوگا۔ يہ کہہ کر کھانا رکھ ليا اور روزہ کھولنے کے بعد ہم سب نے مل کر کھاليا۔ پانچ روپيہ کا آٹا منگواليا جس سے رمضان خيروخوبی سے بسر ہوگيا اس کے بعد چھ مہينے گاؤں ميں رہے پھر دہلی چلے آئے۔ يہاں آکر والدہ کا انتقال ہوگيا اور بہن کی شادی کر دی۔ انگريزی سر کار نے ميری بھی پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کر دی ہے، جس پر آج کل زندگی کا انحصار ہے۔