طارق شاہ
محفلین
غزل
وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا
عیسیٰ کو ہو نَوِید کہ بیمار مر گیا
آزاد کُچھ ہُوئے ہیں اَسِیرانِ زندگی
یعنی جمالِ یار کا صدقہ اُتر گیا
دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ
بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا
شاید کہ شام ِہجر کے مارے بھی جی اُٹھیں
صُبحِ بہار ِحشر کا چہرہ اُتر گیا
آیا کہ دِل گیا ،کوئی پُوچھے تو کیا کہوُں؟
یہ جانتا ہُوں دِل اِدھر آیا اُدھر گیا
مَیں نے دِیا کہ تم نے لِیا دِل، تمھیں کہو!
تم دِل میں پہلے آئے، کہ دِل پیشتر گیا
ہاں سچ تو ہے شِکا یَت ِزخمِ جِگر غلط
دِل سے گُزر کے تِیر تمھارا کِدھر گیا
دِل کا عِلاج کیجیے اب، یا نہ کیجیے!
اپنا جو کام تھا وہ غم ِیار کر گیا
کیا کہیے اپنی گرم رَوَی ہائے شوق کو
کُچھ دُور میرے ساتھ مِرا راہبر گیا
فانیؔ کی ذات سے غمِ ہستی کی تھی نمُود
شِیرازہ آج دفتر ِغم کا بِکھر گیا
فانؔی بدایونی