زنیرہ عقیل
محفلین
اسلام آباد: وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگئی۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا، جہاں وفاقی وزیر قانون محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل پیش کیا۔
مذکورہ ترمیم کو منظوری کے لیے ایوان بالا میں بل پیش کیے جانے پر جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی اور جے یو آئی (ف) نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
بعد ازاں فاٹا انضمام بل کی شق پر رائے شماری کی گئی، جس کی حمایت میں 71 جبکہ مخالفت میں 5 ووٹ آئے، جس کے بعد یہ بل دو تہائی اکثریت سے ایوان سے منظور ہوگیا۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام کے بل کی منظوری پر کہا کہ آج کے تاریخی دن پر فاٹا کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل پیش کیا گیا تھا جو بھاری اکثریت سے منظور ہوا۔
قومی اسمبلی میں بل کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
جمعیت علماء اسلام اور پی کے میپ نے ایوان زیریں میں بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور پی کے میپ نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی تھیں۔
فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد کیا ہوگا؟
واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔
اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔
فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محصولات سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔
سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔
بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔
اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔
2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے اور فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔
فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا، جہاں وفاقی وزیر قانون محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل پیش کیا۔
مذکورہ ترمیم کو منظوری کے لیے ایوان بالا میں بل پیش کیے جانے پر جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی اور جے یو آئی (ف) نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
بعد ازاں فاٹا انضمام بل کی شق پر رائے شماری کی گئی، جس کی حمایت میں 71 جبکہ مخالفت میں 5 ووٹ آئے، جس کے بعد یہ بل دو تہائی اکثریت سے ایوان سے منظور ہوگیا۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام کے بل کی منظوری پر کہا کہ آج کے تاریخی دن پر فاٹا کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل پیش کیا گیا تھا جو بھاری اکثریت سے منظور ہوا۔
قومی اسمبلی میں بل کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
جمعیت علماء اسلام اور پی کے میپ نے ایوان زیریں میں بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور پی کے میپ نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی تھیں۔
فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد کیا ہوگا؟
واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔
اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔
فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محصولات سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔
سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔
بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔
اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔
2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے اور فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔
فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔