امن وسیم
محفلین
*فتوے*
میں نے چار کتابیں کیا پڑھ لیں
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
بے عملوں پہ ، بے عقلوں پہ
بے نور ، نورانی شکلوں پہ
کبھی شاعری پہ ، کبھی گانے پہ
کبھی ڈھول نگاڑے بجانے پہ
کبھی نہانے پہ ، کبھی دھونے پہ
کبھی مغرب کے وقت سونے پہ
کبھی پینے پہ ، کبھی چکھنے پہ
کبھی کتا گھر میں رکھنے پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں خود تو مسجد جاؤں نہ
چلا جاؤں تو دل لگاؤں نہ
پر وہاں بھی فتوے لگاتا ہوں
کبھی وضو پہ اور نمازوں پہ
اونچی نیچی آوازوں پہ
کبھی ماننے اور نہ ماننے پہ
ہاتھ اوپر نیچے باندھنے پہ
کبھی خارش کرتے بندے پہ
ہوں ہاتھ تکبیر میں کندھے پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں کفر کے فتوے لگاتا ہوں
پھر میں ہی نکاح تڑواتا ہوں
تجدید ایماں کرواتا ہوں
میرے سوا ہر فرقہ جہنمی ہے
جو میری نہ مانے وہ لعنتی ہے
میں فتوے لگاؤں داڑھی پہ
کبھی نیکر پہنے کھلاڑی پہ
کبھی ٹخنوں اور شلواروں پہ
بندوقوں اور تلواروں پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں نے دین اسلام اختیار کیا
لیکن صرف رسمیں نبھانے کو
رب اور قرآن کو مان لیا
پر مانا قسمیں اٹھانے کو
بس تلاوت ثواب سمجھتا ہوں
تفسیر ، عذاب سمجھتا ہوں
میں پھر بھی فتوے لگاتا ہوں
کبھی عیدوں پہ، شبراتوں پہ
اور کبھی مبارک راتوں پہ
زیروں پہ، اور کبھی زبروں پہ
مزاروں پہ ، اور کبھی قبروں پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
تصویروں، لاؤڈ اسپیکر پہ
ویڈیو پہ، اور اسٹیکر پہ
ہر روز بدلتی ٹیکنالوجی پہ
سائنس پہ، اور بیالوجی پہ
میرے فتوے برتھ ڈے منانے پہ
میرے فتوے ورق جلانے پہ
بے عملا تو پہلے ہی تھا
تبلیغ بھی میں نے چھوڑ دی ہے
جنہیں دین نے بھائی بنایا تھا
میں نے وہ برادری توڑ دی ہے
میں اب بس فتوے لگاتا ہوں
کبھی شہید اور کبھی مردے پہ
کبھی عطیہ کیے گئے گردے پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں سنی، وہابی، حنفی ہوں
میں شافعی، مالکی، حنبلی ہوں
میں شیعہ ہوا، دیوبندی ہوا
مسلمان کبھی میں ہو نہ سکا
میرے علم کا سکہ کھوٹا ہے
میرا ہر فتوا ہی جھوٹا ہے
میں خود تو فرض نبھاؤں نہ
شریعت کے پاس بھی آؤں نہ
میرے فتوے جاری و ساری ہیں
کبھی لفظوں کی ادائیگی پہ
کبھی غیر مسلم ہمسائیگی پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں نے چار کتابیں کیا پڑھ لیں
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
امن وسیم
میں نے چار کتابیں کیا پڑھ لیں
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
بے عملوں پہ ، بے عقلوں پہ
بے نور ، نورانی شکلوں پہ
کبھی شاعری پہ ، کبھی گانے پہ
کبھی ڈھول نگاڑے بجانے پہ
کبھی نہانے پہ ، کبھی دھونے پہ
کبھی مغرب کے وقت سونے پہ
کبھی پینے پہ ، کبھی چکھنے پہ
کبھی کتا گھر میں رکھنے پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں خود تو مسجد جاؤں نہ
چلا جاؤں تو دل لگاؤں نہ
پر وہاں بھی فتوے لگاتا ہوں
کبھی وضو پہ اور نمازوں پہ
اونچی نیچی آوازوں پہ
کبھی ماننے اور نہ ماننے پہ
ہاتھ اوپر نیچے باندھنے پہ
کبھی خارش کرتے بندے پہ
ہوں ہاتھ تکبیر میں کندھے پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں کفر کے فتوے لگاتا ہوں
پھر میں ہی نکاح تڑواتا ہوں
تجدید ایماں کرواتا ہوں
میرے سوا ہر فرقہ جہنمی ہے
جو میری نہ مانے وہ لعنتی ہے
میں فتوے لگاؤں داڑھی پہ
کبھی نیکر پہنے کھلاڑی پہ
کبھی ٹخنوں اور شلواروں پہ
بندوقوں اور تلواروں پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں نے دین اسلام اختیار کیا
لیکن صرف رسمیں نبھانے کو
رب اور قرآن کو مان لیا
پر مانا قسمیں اٹھانے کو
بس تلاوت ثواب سمجھتا ہوں
تفسیر ، عذاب سمجھتا ہوں
میں پھر بھی فتوے لگاتا ہوں
کبھی عیدوں پہ، شبراتوں پہ
اور کبھی مبارک راتوں پہ
زیروں پہ، اور کبھی زبروں پہ
مزاروں پہ ، اور کبھی قبروں پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
تصویروں، لاؤڈ اسپیکر پہ
ویڈیو پہ، اور اسٹیکر پہ
ہر روز بدلتی ٹیکنالوجی پہ
سائنس پہ، اور بیالوجی پہ
میرے فتوے برتھ ڈے منانے پہ
میرے فتوے ورق جلانے پہ
بے عملا تو پہلے ہی تھا
تبلیغ بھی میں نے چھوڑ دی ہے
جنہیں دین نے بھائی بنایا تھا
میں نے وہ برادری توڑ دی ہے
میں اب بس فتوے لگاتا ہوں
کبھی شہید اور کبھی مردے پہ
کبھی عطیہ کیے گئے گردے پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں سنی، وہابی، حنفی ہوں
میں شافعی، مالکی، حنبلی ہوں
میں شیعہ ہوا، دیوبندی ہوا
مسلمان کبھی میں ہو نہ سکا
میرے علم کا سکہ کھوٹا ہے
میرا ہر فتوا ہی جھوٹا ہے
میں خود تو فرض نبھاؤں نہ
شریعت کے پاس بھی آؤں نہ
میرے فتوے جاری و ساری ہیں
کبھی لفظوں کی ادائیگی پہ
کبھی غیر مسلم ہمسائیگی پہ
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
میں نے چار کتابیں کیا پڑھ لیں
میں فتوے لگاؤں ہر ایک پہ
امن وسیم