فیصل عظیم فیصل
محفلین
"فحاشی"
میں سچائ کو سب کے سامنے لاؤں گی ۔ میں سب کو بتاؤں گی کہ اس بیچاری کے ساتھ کیا ہوا۔ اسکے اپنوں نے اس کی دیوانگی کو اسکی کمزوری اور اپنی عیاشی کا بہانہ بنا لیا۔
نادیہ کی عمر بیس برس کی تھی مگر بچپن میں ایک حادثے کے نتیجے میں اسکی ذہنی نشونما رک گئ تھی۔ اسکا باپ احمد گدھا گاڑی چلاتا تھا اور اسکی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتے کرتے اپنی جوانی اور تمام خوابوں کو بھی شاید کسی کے برتنوں کے ساتھ ہی راکھ میں مانجھ چکی تھی۔ سر میں چاندی نظر آتی تھی اور کبھی کبھی وہ یاد کرتی تھی کہ اللہ کرے میری بیٹی ٹھیک ہو جاے ۔ کیا یہ ساری عمر ایسی ہی رہے گی۔ اور وہ اس گھڑی کو کوستی تھی جب اس حادثے نے انکی بچی سے جینے کا حق چھین لیا۔ شروع شروع میں تو انکو احساس نہ ہوسکا مگر جب انہوں نےدیکھا کہ عمر بڑھ جانے کے باوجود بچی کی باتوں اور حرکات میں کسی قسم کا تطور نہیں ہے تو انہوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اب اس بچی کو زندگی بھر یوں ہی رہنا ہوگا کیونکہ حادثے میں دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچا جو شعور کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اسکی ماں نے اسکو مزاروں پر لے جانا شروع کیا ۔ احمد دن بھر گدھا گاڑی چلاتا اور شام کو گھر لوٹ کر اپنی بچی کی صورت دیکھ دیکھ کر جاگتا رہتا۔
نادیہ بڑی ہو رہی تھی مگر نہیں وہ تو اتنی ہی تھی۔ ننھی سی بچی لیکن جوان خوبصورت اسکو دیکھ کر شہباز کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آجاتی وہ عرصہ دراز سے اس پکے ہوءے پھل کو دیکھ دیکھ کر اپنے دل کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کیا کرے یہ بے قابوجوانی کسی پل چین نہیں لینے دیتی۔ ایک دن شہباز کو موقع مل گیا۔ نادیہ اس سے گھلی ملی تو تھی ہی کیونکہ وہ اسکا محلے دار تھا اور نادیہ کو کیا معلوم تھا کہ کیا برا ہے اور کیا اچھا وہ تو بچی تھی جسکی سوچ میں کھیل اور کھانے سونے کے علاوہ کسی اور چیز کا گزر ہی نہ تھا۔ اس شہباز نے اس معصوم کلی کو نوچ ڈالا اور پھر اسکو کہا کہ کسی کو بتانا نہیں۔ کیونکہ اگر کسی کو بتایا تو بہت مار پٹے گی اور پھر اسکا کتا بھی اسکا لحاظ نہیں کرے گا۔ نادیہ خوف اور ڈر میں کسی سے اس بات کا ذکر نہ کر سکی ۔ جب کسی کو احساس ہی نہ ہو کہ متاع کسے کہتے ہیں تو اسکے گم ہونے کا افسوس کیسا۔ کسی کو یہ علم ہی نہ ہو کہ زندگی ۔ عزت ۔ قدر ۔ اور ظلم کسے کہتے ہیں تو وہ اس کے خلاف آواز کیا اٹھاے گا۔ اسی طرح چند مہینے گزر گیے اور شہباز اپنے شکار پر پلٹتا جھپٹتا رہا اور وہ اسے بھی ایک کھیل سمجھ کر کھیلتی رہی اصل میں تو وہ کھلونا تھی۔ جسکے نصیب میں ٹوٹنا لکھ دیا گیا تھا۔
چند ماہ کے بعد اسکی ماں کو احساس ہو کہ کچھ تبدیلیاں انکی بیٹی کے جسم میں ہو رہی ہیں۔ جنکو ایک عورت اچھی طرح پہچان سکتی ہے ۔ اس نے اپنی بیٹی کو دایہ سے چیک کروایا تو معلوم ہوا کہ اسکی معصومیت پر تو داغ لگ چکا ہے ۔ ساتواں مہینہ چل رہا ہے اور اب دایہ اس سلسلے میں کچھ نہی کر سکتی کہ یہ بدنامی کسی کے سامنےآنے سے پہلے ہی دبا دی جا سکے۔ اسکی انکھوں کے سامنے اندھیرا اگیا اسکی دنیا اندھیر ہوگی اب کیا ہو گا احمد کو پتہ چلا تو وہ تو اسے مار ہی ڈالے گا۔ نادیہ پر غصہ کرنے کا کیا فایدہ وہ تو تھی ہی نہ ہونے جیسی۔ اب اسکی ماں اسے گھر لے آئی اور اسکے باپ کو ڈرتے ڈرتے حقیقت سے اگاہ کیا ۔ احمد پہلے تو غصے میں آگیا اور دوڑا نادیہ کو قتل کرنے کو اسکی ماں نے منتین کر کر کے اور پتہ نہیں کیسے اس غصے میں پاگل شخص کو روکا اب اگلا مرحلہ اس مجرم کو تلاش کرنا تھا جسکی حیوانیت کا نادیہ کی معصومیت شکار بنی تھی۔ نادیہ سے پوچھا گیا تو اسنے بغیر کسی تردد کے شہباز کا نام لے دیا وہی شہباز جسکو احمد اور اسکی بیوی اپنے بچوں کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔ وہی شہباز جسے وہ ہمیشہ ایک بچے کی نظر سے دیکھتے تھے انکی عزت کا قاتل نکلا۔
رات کو احمد شہباز کے باپ کے پاس گیا کہ اس مسلے کا حل نکالا جاسکے جس نے عزت خطرے میں ڈال دی ہے۔ شہباز کے باپ نے اسکی بات سننے کی بجاے اسکو گھر سے دھکے دے کر نکال دیا اور کہا کہ کسی اور کے کرتوت میرے بیٹے کے سرپر مت پوتو ۔۔۔۔ ایک بار اس مسلے کو لیکر آئے ہو اور زندہ جا رہے ہو اگلی بار یہ رعایت نہیں ملے گی۔ احمد اس مسئلے کو لیکر تھانے گیا تو پولیس والوں نے اسکو تسلی دی کہ ہم اس کا حل کرتے ہیں ۔ اور چھاپہ مار کر ملزم کو پکڑ لیا ۔ دوسرے دن ملزم بھی باہر اور ملزم کے والد صاحب کا اعلان کہ میرے بیٹے کی معصومیت پر الزام لگانے والوں کو اس گاوں میں نہیں رہنے دونگا۔ احمد کو بھری پنچایت میں ذلیل کیا گیا۔ اس کو بے غیرت ۔ کنجر اور نہ جانے کن کن ناموں سے پکارا گیا۔ دوبارہ شنوائی کے لیے تھانے جانے پر پولیس والوں کا سفارش یا لمبی رقم کا مطالبہ اسکو ساری حقیقت بتا گیا کہ اس کی کیا مجال جو پیسے والوں سے ٹکر لے سکے۔ کیا جرم ضعیفی کی سزا صرف موت ہی ہے۔۔؟ اب ایسی صورت حال میں ایک گدھا گاڑی والا کہاں تک جاسکتا ہے۔ وہ زندہ ہے لیکن مردوں سے بدتر ۔ لیکن آج کی دنیا میں مردے زندوں سے اچھے حال میں ہیں۔ خیر اس بات کی خبر جب اسماء کو پہنچی جو برطانیہ میں رہتی تھی اور اسکا تعلق انکے گاوں سے ہی تھا تو وہ تڑپ اٹھی اس نے کتنی ہی این جی اوز کو لکھا لیکن شاید وہاں بھی مصالحے دار مواد پر مبنی مسائل کو اٹھایا جاتا ہے جسپر کوئی ڈیل ہو سکے اور نتیجے میں کچھ فنڈز یا کم از کم میڈیا کو ریج تو ملے۔ تنگ اکر اسماء نے اس مسلے کو انٹیر نیٹ پر قایم فورمز پر اٹھانے کا فیصلہ کیا تو ایک صاحب نے اسکی پوسٹ کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ڈیلیٹ کر دیا اب اس ڈیلیشن کا سبب جو بتایا گیا وہ تھا کہ اس پوسٹ سے فحاشی کی بو آتی ہے واہ میرے عزیز بھائی آپ کا اعتراض کیا اب ہم اس معاشرے میں جینا چھوڑ دیں جہاں دن رات جو کچھ ہوتا ہے اسے معمول کا حصہ سمجھ کر پوری قوم برداشت کر رہی ہے۔ دن رات ہزاروں نادیہ اپنی زندگی کے سرمایہ سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور ایسے لوگ جن کو نادیہ پر ہونے والا ظلم تو برا لگتا ہے مگر اس ظلم کا ذکر کرنا فحاشی کے زمرے میں آتا ہے کیا ہم اس بات کا فیصلہ کر سکیں گے کہ نادیہ پر ہونے والے ظلم کا ذمہ دار کون ہے وہ تو پگلی تھی ہی مگر اس درندے کو تو عقل تھی کہ ایک ذہنی طور پر معذور بچی جسکی جسمانی عمر شاید ٢٠ یا ٢١ برس کی ہو چکی ہو مگر ذہنی طور پر اسکی نشوو نما 12 برس کی عمر پر رک چکی تھی۔ اسکے ساتھ یہ ظلم کرتے ہوے اس نے ایک پل کو بھی نہ سوچا کہ میں کس کے ساتھ کیا ظلم کر رہا ہوں۔ ویسے تو ہمارے معاشرے میں درندوں کی کوئی کمی نہیں ہے کچھ کھلم کھلا درندگی کرتے ہیں اور اس درندگی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو قوت سے دور کرتے ہیں ۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنی درندگی کو تہذیب کا لبادہ پہنا کر بڑی بڑی باتیں کرکے بظاہر غریب عورتوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ مگر بباطن انکے پیکروں پر ہوس کی نظر پھیرتے ہوئے۔ مجبوریوں کا سودا کرتے اپنی ہوس کی سیج سجاتے ہوئے سب کی نظروں میں اچھے مگر اپنے شکار کی نظر میں ننگے مہذب درندے جنکو خون کی نہیں ٹھنڈے گوشت کی لت لگی ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کا حل کرنا چاہیے یا پھر ایسے ظلم کا ذکر کرنے والوں پر ایک لفظ لکھ کر پابندی لگا دینی چاہیے اور وہ لفظ ہے " فحاشی "
میں سچائ کو سب کے سامنے لاؤں گی ۔ میں سب کو بتاؤں گی کہ اس بیچاری کے ساتھ کیا ہوا۔ اسکے اپنوں نے اس کی دیوانگی کو اسکی کمزوری اور اپنی عیاشی کا بہانہ بنا لیا۔
نادیہ کی عمر بیس برس کی تھی مگر بچپن میں ایک حادثے کے نتیجے میں اسکی ذہنی نشونما رک گئ تھی۔ اسکا باپ احمد گدھا گاڑی چلاتا تھا اور اسکی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتے کرتے اپنی جوانی اور تمام خوابوں کو بھی شاید کسی کے برتنوں کے ساتھ ہی راکھ میں مانجھ چکی تھی۔ سر میں چاندی نظر آتی تھی اور کبھی کبھی وہ یاد کرتی تھی کہ اللہ کرے میری بیٹی ٹھیک ہو جاے ۔ کیا یہ ساری عمر ایسی ہی رہے گی۔ اور وہ اس گھڑی کو کوستی تھی جب اس حادثے نے انکی بچی سے جینے کا حق چھین لیا۔ شروع شروع میں تو انکو احساس نہ ہوسکا مگر جب انہوں نےدیکھا کہ عمر بڑھ جانے کے باوجود بچی کی باتوں اور حرکات میں کسی قسم کا تطور نہیں ہے تو انہوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اب اس بچی کو زندگی بھر یوں ہی رہنا ہوگا کیونکہ حادثے میں دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچا جو شعور کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اسکی ماں نے اسکو مزاروں پر لے جانا شروع کیا ۔ احمد دن بھر گدھا گاڑی چلاتا اور شام کو گھر لوٹ کر اپنی بچی کی صورت دیکھ دیکھ کر جاگتا رہتا۔
نادیہ بڑی ہو رہی تھی مگر نہیں وہ تو اتنی ہی تھی۔ ننھی سی بچی لیکن جوان خوبصورت اسکو دیکھ کر شہباز کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آجاتی وہ عرصہ دراز سے اس پکے ہوءے پھل کو دیکھ دیکھ کر اپنے دل کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کیا کرے یہ بے قابوجوانی کسی پل چین نہیں لینے دیتی۔ ایک دن شہباز کو موقع مل گیا۔ نادیہ اس سے گھلی ملی تو تھی ہی کیونکہ وہ اسکا محلے دار تھا اور نادیہ کو کیا معلوم تھا کہ کیا برا ہے اور کیا اچھا وہ تو بچی تھی جسکی سوچ میں کھیل اور کھانے سونے کے علاوہ کسی اور چیز کا گزر ہی نہ تھا۔ اس شہباز نے اس معصوم کلی کو نوچ ڈالا اور پھر اسکو کہا کہ کسی کو بتانا نہیں۔ کیونکہ اگر کسی کو بتایا تو بہت مار پٹے گی اور پھر اسکا کتا بھی اسکا لحاظ نہیں کرے گا۔ نادیہ خوف اور ڈر میں کسی سے اس بات کا ذکر نہ کر سکی ۔ جب کسی کو احساس ہی نہ ہو کہ متاع کسے کہتے ہیں تو اسکے گم ہونے کا افسوس کیسا۔ کسی کو یہ علم ہی نہ ہو کہ زندگی ۔ عزت ۔ قدر ۔ اور ظلم کسے کہتے ہیں تو وہ اس کے خلاف آواز کیا اٹھاے گا۔ اسی طرح چند مہینے گزر گیے اور شہباز اپنے شکار پر پلٹتا جھپٹتا رہا اور وہ اسے بھی ایک کھیل سمجھ کر کھیلتی رہی اصل میں تو وہ کھلونا تھی۔ جسکے نصیب میں ٹوٹنا لکھ دیا گیا تھا۔
چند ماہ کے بعد اسکی ماں کو احساس ہو کہ کچھ تبدیلیاں انکی بیٹی کے جسم میں ہو رہی ہیں۔ جنکو ایک عورت اچھی طرح پہچان سکتی ہے ۔ اس نے اپنی بیٹی کو دایہ سے چیک کروایا تو معلوم ہوا کہ اسکی معصومیت پر تو داغ لگ چکا ہے ۔ ساتواں مہینہ چل رہا ہے اور اب دایہ اس سلسلے میں کچھ نہی کر سکتی کہ یہ بدنامی کسی کے سامنےآنے سے پہلے ہی دبا دی جا سکے۔ اسکی انکھوں کے سامنے اندھیرا اگیا اسکی دنیا اندھیر ہوگی اب کیا ہو گا احمد کو پتہ چلا تو وہ تو اسے مار ہی ڈالے گا۔ نادیہ پر غصہ کرنے کا کیا فایدہ وہ تو تھی ہی نہ ہونے جیسی۔ اب اسکی ماں اسے گھر لے آئی اور اسکے باپ کو ڈرتے ڈرتے حقیقت سے اگاہ کیا ۔ احمد پہلے تو غصے میں آگیا اور دوڑا نادیہ کو قتل کرنے کو اسکی ماں نے منتین کر کر کے اور پتہ نہیں کیسے اس غصے میں پاگل شخص کو روکا اب اگلا مرحلہ اس مجرم کو تلاش کرنا تھا جسکی حیوانیت کا نادیہ کی معصومیت شکار بنی تھی۔ نادیہ سے پوچھا گیا تو اسنے بغیر کسی تردد کے شہباز کا نام لے دیا وہی شہباز جسکو احمد اور اسکی بیوی اپنے بچوں کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔ وہی شہباز جسے وہ ہمیشہ ایک بچے کی نظر سے دیکھتے تھے انکی عزت کا قاتل نکلا۔
رات کو احمد شہباز کے باپ کے پاس گیا کہ اس مسلے کا حل نکالا جاسکے جس نے عزت خطرے میں ڈال دی ہے۔ شہباز کے باپ نے اسکی بات سننے کی بجاے اسکو گھر سے دھکے دے کر نکال دیا اور کہا کہ کسی اور کے کرتوت میرے بیٹے کے سرپر مت پوتو ۔۔۔۔ ایک بار اس مسلے کو لیکر آئے ہو اور زندہ جا رہے ہو اگلی بار یہ رعایت نہیں ملے گی۔ احمد اس مسئلے کو لیکر تھانے گیا تو پولیس والوں نے اسکو تسلی دی کہ ہم اس کا حل کرتے ہیں ۔ اور چھاپہ مار کر ملزم کو پکڑ لیا ۔ دوسرے دن ملزم بھی باہر اور ملزم کے والد صاحب کا اعلان کہ میرے بیٹے کی معصومیت پر الزام لگانے والوں کو اس گاوں میں نہیں رہنے دونگا۔ احمد کو بھری پنچایت میں ذلیل کیا گیا۔ اس کو بے غیرت ۔ کنجر اور نہ جانے کن کن ناموں سے پکارا گیا۔ دوبارہ شنوائی کے لیے تھانے جانے پر پولیس والوں کا سفارش یا لمبی رقم کا مطالبہ اسکو ساری حقیقت بتا گیا کہ اس کی کیا مجال جو پیسے والوں سے ٹکر لے سکے۔ کیا جرم ضعیفی کی سزا صرف موت ہی ہے۔۔؟ اب ایسی صورت حال میں ایک گدھا گاڑی والا کہاں تک جاسکتا ہے۔ وہ زندہ ہے لیکن مردوں سے بدتر ۔ لیکن آج کی دنیا میں مردے زندوں سے اچھے حال میں ہیں۔ خیر اس بات کی خبر جب اسماء کو پہنچی جو برطانیہ میں رہتی تھی اور اسکا تعلق انکے گاوں سے ہی تھا تو وہ تڑپ اٹھی اس نے کتنی ہی این جی اوز کو لکھا لیکن شاید وہاں بھی مصالحے دار مواد پر مبنی مسائل کو اٹھایا جاتا ہے جسپر کوئی ڈیل ہو سکے اور نتیجے میں کچھ فنڈز یا کم از کم میڈیا کو ریج تو ملے۔ تنگ اکر اسماء نے اس مسلے کو انٹیر نیٹ پر قایم فورمز پر اٹھانے کا فیصلہ کیا تو ایک صاحب نے اسکی پوسٹ کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ڈیلیٹ کر دیا اب اس ڈیلیشن کا سبب جو بتایا گیا وہ تھا کہ اس پوسٹ سے فحاشی کی بو آتی ہے واہ میرے عزیز بھائی آپ کا اعتراض کیا اب ہم اس معاشرے میں جینا چھوڑ دیں جہاں دن رات جو کچھ ہوتا ہے اسے معمول کا حصہ سمجھ کر پوری قوم برداشت کر رہی ہے۔ دن رات ہزاروں نادیہ اپنی زندگی کے سرمایہ سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور ایسے لوگ جن کو نادیہ پر ہونے والا ظلم تو برا لگتا ہے مگر اس ظلم کا ذکر کرنا فحاشی کے زمرے میں آتا ہے کیا ہم اس بات کا فیصلہ کر سکیں گے کہ نادیہ پر ہونے والے ظلم کا ذمہ دار کون ہے وہ تو پگلی تھی ہی مگر اس درندے کو تو عقل تھی کہ ایک ذہنی طور پر معذور بچی جسکی جسمانی عمر شاید ٢٠ یا ٢١ برس کی ہو چکی ہو مگر ذہنی طور پر اسکی نشوو نما 12 برس کی عمر پر رک چکی تھی۔ اسکے ساتھ یہ ظلم کرتے ہوے اس نے ایک پل کو بھی نہ سوچا کہ میں کس کے ساتھ کیا ظلم کر رہا ہوں۔ ویسے تو ہمارے معاشرے میں درندوں کی کوئی کمی نہیں ہے کچھ کھلم کھلا درندگی کرتے ہیں اور اس درندگی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو قوت سے دور کرتے ہیں ۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنی درندگی کو تہذیب کا لبادہ پہنا کر بڑی بڑی باتیں کرکے بظاہر غریب عورتوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ مگر بباطن انکے پیکروں پر ہوس کی نظر پھیرتے ہوئے۔ مجبوریوں کا سودا کرتے اپنی ہوس کی سیج سجاتے ہوئے سب کی نظروں میں اچھے مگر اپنے شکار کی نظر میں ننگے مہذب درندے جنکو خون کی نہیں ٹھنڈے گوشت کی لت لگی ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کا حل کرنا چاہیے یا پھر ایسے ظلم کا ذکر کرنے والوں پر ایک لفظ لکھ کر پابندی لگا دینی چاہیے اور وہ لفظ ہے " فحاشی "