مانی عباسی
محفلین
فراقِ یار میں ایسا کمال آیا
سنانے خود کو میں اپناہی حال آیا
ترے جب ہجر میں تیرا خیال آیا
ہر اک لمحہ ہر اک پل بن کے سال آیا
وفا کا نام اور وہ بھی ترے لب سے
لگےجیسے بچھانے کوئی جال آیا
بھلا بیٹھے ستارے چاند کو ہی اب
ہے کوئی سج کے آج اتنا کمال آیا
کلی کو دیکھ کر ڈھلتے گلابوں میں
نہ جانے یاد کیوں وہ کِھلتا گال آیا
نہ حوریں خلد کی نے حسن کی دیوی
پسند آیا تو بس تیرا جمال آیا
سنائی بزم میں روداد جب مانی
بہت آنکھوں کے دریا کو جلال آیا ........