طارق شاہ
محفلین
غزلِ
فرح جعفری
اک دولتِ یقین تھی جو، اب پاس بھی نہیں
لیکن یہاں کسی کو یہ احساس بھی نہیں
لیکن یہاں کسی کو یہ احساس بھی نہیں
برسوں سے ہم کھڑےہیں اُسی آئینے کے پاس
وہ آئینہ جو چہرے کا ، عکاس بھی نہیں
وہ آئینہ جو چہرے کا ، عکاس بھی نہیں
رنج والم کی اِس پہ ہے تحریر جا بجا
یہ زندگی، جو صفحۂ قرطاس بھی نہیں
یہ زندگی، جو صفحۂ قرطاس بھی نہیں
ہر چند ہم نے مانگیں دُعائیں بہار کی
حالانکہ ہم کو موسمِ گُل راس بھی نہیں
حالانکہ ہم کو موسمِ گُل راس بھی نہیں
یادوں کا اک ہجوم ہے کیوں دل کے آس پاس
اب شہرِ دل کے بسنےکی تو آس بھی نہیں
اب شہرِ دل کے بسنےکی تو آس بھی نہیں
جانے کہاں گئے وہ حویلی کے سب مکیں
آقا نہیں ، کنیز نہیں ، داس بھی نہیں
آقا نہیں ، کنیز نہیں ، داس بھی نہیں
دیکھیں اگر تو پینے کو دریا بھی کم پڑیں
سوچیں فرح تو اتنی ہمیں پیاس بھی نہیں
سوچیں فرح تو اتنی ہمیں پیاس بھی نہیں
فرح جعفری