طاھر جاوید
محفلین
پہلے تو تعلق مساموں کے بھیگتے پن میں اُجالے کی طرح پھیلتا ھے
پھر آنکھوں سے نکل کر جُنبشوں کی ساری حالتوں میں بہتا کبھی ٹہرتا ہے
فراغت کے لمحوں پہ لطافتِ بے ریا کے بِچھے اس بستر پہ
آدمی حال بے حال سا لیٹا خود سے بھی گُما رہتا ہے
یاد پھر، آباد کو کرتی ہے کوئی اشارہ تو
کوَئے امروز میں بسے ماضی کے مکیں بھی سارے
آتے آتے دیکھو بہت پاس سے آ جا تے ہیں
رفتار کہ وہی رہتی ہے ، خود سے ملکر دوسرے سے ملنے کی
گُفتار بھی وہی رہتی ہے دوسرے سے ملکرپھر ملنے کے دوراں میں مگر
دھیان کے آنگن میں کُچھ اور پُروائیوں کی پر چھائیاں بھی
اس گُفتار کی رفتاری و نا رفتاری کے درمیاں
ڈیرہ لگانے آ جاتی ہیں اور کہتی ہیں آج سے ہم بھی
ترے دھیاں کی مہمان ہیں، بلکہ ہم بھی ترا دھیان ھیں
ایسے میں آدمی خود کو کُچھ اور مکمل ہوتا لگتا ہے
اور خود سے ملکر دوسرے سے ملنے کے دوراں کے سارے لمحات
یہ سارہ جہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کی اُوڑھ سے گُھورنے کی پاداش میں ملی تھکاوٹ سے
بےحد سوتا لگتا ہےمگر
فرصت اور فُرقت کے ان لمحوں کے گُذرنے کے درمیاں
خیال آتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمریں چاہے لمبی ہوں یا چھوٹی ھوں طے کرنی ہی پڑنی ہیں
وجود چاھے نشانہء سنگ باراں ء شہر رہے
گذرتے لمحوں کے ہر موسم میں اِس وجود کو
اپنی روح کے گرد لپیٹے اُٹھانا ھو گا
خود کو خود ہی آنے والے بے گُماں دنوں کا نغمہ سنانا ہو گا
تہی تہی سے مناظر ہوں جب اس فضائے گرد مِں تو
متاعِ عُمر ہر خواب کو وقت کے دریا میں بہانا پڑتا ھے
پھر آنکھوں سے نکل کر جُنبشوں کی ساری حالتوں میں بہتا کبھی ٹہرتا ہے
فراغت کے لمحوں پہ لطافتِ بے ریا کے بِچھے اس بستر پہ
آدمی حال بے حال سا لیٹا خود سے بھی گُما رہتا ہے
یاد پھر، آباد کو کرتی ہے کوئی اشارہ تو
کوَئے امروز میں بسے ماضی کے مکیں بھی سارے
آتے آتے دیکھو بہت پاس سے آ جا تے ہیں
رفتار کہ وہی رہتی ہے ، خود سے ملکر دوسرے سے ملنے کی
گُفتار بھی وہی رہتی ہے دوسرے سے ملکرپھر ملنے کے دوراں میں مگر
دھیان کے آنگن میں کُچھ اور پُروائیوں کی پر چھائیاں بھی
اس گُفتار کی رفتاری و نا رفتاری کے درمیاں
ڈیرہ لگانے آ جاتی ہیں اور کہتی ہیں آج سے ہم بھی
ترے دھیاں کی مہمان ہیں، بلکہ ہم بھی ترا دھیان ھیں
ایسے میں آدمی خود کو کُچھ اور مکمل ہوتا لگتا ہے
اور خود سے ملکر دوسرے سے ملنے کے دوراں کے سارے لمحات
یہ سارہ جہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کی اُوڑھ سے گُھورنے کی پاداش میں ملی تھکاوٹ سے
بےحد سوتا لگتا ہےمگر
فرصت اور فُرقت کے ان لمحوں کے گُذرنے کے درمیاں
خیال آتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمریں چاہے لمبی ہوں یا چھوٹی ھوں طے کرنی ہی پڑنی ہیں
وجود چاھے نشانہء سنگ باراں ء شہر رہے
گذرتے لمحوں کے ہر موسم میں اِس وجود کو
اپنی روح کے گرد لپیٹے اُٹھانا ھو گا
خود کو خود ہی آنے والے بے گُماں دنوں کا نغمہ سنانا ہو گا
تہی تہی سے مناظر ہوں جب اس فضائے گرد مِں تو
متاعِ عُمر ہر خواب کو وقت کے دریا میں بہانا پڑتا ھے