Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
آپ نے جو تقابل اور موازنہ پيش کيا ہے وہ حقائق پر نہيں بلکہ غلط تاثر پر مبنی ہے۔
جب ايبٹ آباد ميں آپريشن کيا گيا تھا تو اس کا مقصد دنيا کے خطرناک ترين دہشت گرد کو نشانہ بنانا تھا جو ہزاروں افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا نا کہ اس علاقے سے ايسے تمام افراد کا قلع قمع کرنا جنھوں نے کبھی بھی امريکہ کے خلاف اظہار نفرت کيا ہو۔ اور آپريشن ميں وہی ہوا جس کی کاوش کی گئ۔
امريکی حکومت ہر اس شخص کا تعاقب نہيں کر رہی جو ہماری پاليسيوں سے اختلاف رکھتا ہے، ہماری طرز زندگی کو رد کرتا ہے يا دنيا کے تمام مسائل کے ليے ہميں قصور وار قرار ديتا ہے۔ ايسی کوشش يا سوچ تو محض ايک نا ختم ہونے والی اتھاہ گہرائ کی جانب لے جائے گی اور يہ ہماری واضح کردہ خارجہ پاليسی سے قطعی مختلف ہے۔
ويسے بھی خود امريکہ کے اندر ايسے افراد اور گروہ موجود ہيں جن ميں مسلم اور غير مسلم دونوں شامل ہیں جو نا صرف يہ کہ ہماری خارجہ پاليسی سے متعلق فيصلوں پر مسلسل حملے کرتے ہیں بلکہ امريکی حکومت کی جانب سے کسی بھی مداخلت کے بغير کھلم کھلا عوام ميں اپنے خيالات کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن ميں آپ کے سامنے ايک مسلم تنظيم حزب التحرير کی مثال رکھوں گا جو امريکہ بھر ميں سيمينار اور کانفرنس منعقد کرتی ہے جن ميں امريکی شہريوں کو اسلامی خلافت کے قيام کی جانب کوششيں کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے۔
اسی طرح ايسے افراد اور گروہ بھی موجود ہيں جو مسلم اور غير مسلم سميت ديگر مذاہب کے بارے ميں اپنے نظريات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کے يہ خيالات کتنے متنازعہ، قابل نفرت يا انقلابی نوعيت کے ہیں، انھيں دہشت گردی کے ايسے عمل کے مساوی قرار نہيں ديا جا سکتا جس میں بے گناہ شہريوں کو ہلاک کر کے دانستہ اپنے سوچ کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کے لیے قتل وغارت غاری کا سہارا ليا جاتا ہے۔
ميں آپ کو يقين سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر امريکہ کے اندر کوئ فرد يا گروہ کسی دوسرے حلقے کے خلاف دہشت گردی کے کسی عمل يا ايسے کسی فعل کی منصوبہ بندی ميں ملوث پايا جائے تو مذہبی اور سياسی وابستگی سے قطع نظر انسانی جانوں کی حفاطت کو يقينی بنانے کے لیے رياست کے قانون کو نافذ کيا جائے گا۔
ميں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے مسلم، عرب، مشرق وسطی اور ايشيا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کے ضمن ميں قريب 800 واقعات کی تحقيقات کروائ۔ اب تک ان ميں 48 ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوئ ہے اور 41 افراد کو سزائيں بھی دی جا چکی ہيں۔ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے تعصب پر مبنی واقعات ميں اسٹيٹ اور مقامی انتظاميہ کی مدد سے 160 مقدمات درج کيے ہيں۔
آپ اس بارے ميں تفصيلات اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1234963&da=y
مارچ 2011 ميں واشنگٹن کے ايک تھنک ٹينک سينٹر فار سيکورٹی پاليسی نے ايک تحقيق پيش کی جس ميں يہ واضح کيا گيا مذہبی تعصب پر مبنی جرائم يعنی کہ "ہيٹ کرائم" جو کہ امريکی مسلمانوں کے خلاف ہوئے ان ميں سال 2001 کے بعد سے بتدريج کمی واقع ہوئ ہے اور ان کی تعداد سينکڑوں ميں رہ گئ ہے اور يہ تعداد يہوديوں کے خلاف ہونے والے متعصب جرائم کے مقابلے ميں کم ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
ان تمام لوگوں کو پیدا کرنے والا اور ان کی پشت پناہی کرنے والا بھی امریکہ ہی ہے
اگر ان لوگوں نے امریکہ پر حملے کا اعلان کیا بھی ہے تو امریکہ کو چاہیے کہ اپنا دفاع اور اپنی سرحدات اور نگرانی کو محفوظ کرنے کا انتظام کرے اور ان دہشت گردوں کو خاتمے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت اور فورسز پر ڈال دے
طالبان نے اگر امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو امریکہ میں بھی کئی ایسے شدت پسند ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو کیا اب تمام مسلم ممالک مل کر امریکہ پر چڑھ دوڑے اور ان شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے حملے شروع کردیں اگر یہی دلیل آپ کی دلیل ہے تو اب تمام مسلم ممالک کو ایسے تمام لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں
آپ نے جو تقابل اور موازنہ پيش کيا ہے وہ حقائق پر نہيں بلکہ غلط تاثر پر مبنی ہے۔
جب ايبٹ آباد ميں آپريشن کيا گيا تھا تو اس کا مقصد دنيا کے خطرناک ترين دہشت گرد کو نشانہ بنانا تھا جو ہزاروں افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا نا کہ اس علاقے سے ايسے تمام افراد کا قلع قمع کرنا جنھوں نے کبھی بھی امريکہ کے خلاف اظہار نفرت کيا ہو۔ اور آپريشن ميں وہی ہوا جس کی کاوش کی گئ۔
امريکی حکومت ہر اس شخص کا تعاقب نہيں کر رہی جو ہماری پاليسيوں سے اختلاف رکھتا ہے، ہماری طرز زندگی کو رد کرتا ہے يا دنيا کے تمام مسائل کے ليے ہميں قصور وار قرار ديتا ہے۔ ايسی کوشش يا سوچ تو محض ايک نا ختم ہونے والی اتھاہ گہرائ کی جانب لے جائے گی اور يہ ہماری واضح کردہ خارجہ پاليسی سے قطعی مختلف ہے۔
ويسے بھی خود امريکہ کے اندر ايسے افراد اور گروہ موجود ہيں جن ميں مسلم اور غير مسلم دونوں شامل ہیں جو نا صرف يہ کہ ہماری خارجہ پاليسی سے متعلق فيصلوں پر مسلسل حملے کرتے ہیں بلکہ امريکی حکومت کی جانب سے کسی بھی مداخلت کے بغير کھلم کھلا عوام ميں اپنے خيالات کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن ميں آپ کے سامنے ايک مسلم تنظيم حزب التحرير کی مثال رکھوں گا جو امريکہ بھر ميں سيمينار اور کانفرنس منعقد کرتی ہے جن ميں امريکی شہريوں کو اسلامی خلافت کے قيام کی جانب کوششيں کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے۔
اسی طرح ايسے افراد اور گروہ بھی موجود ہيں جو مسلم اور غير مسلم سميت ديگر مذاہب کے بارے ميں اپنے نظريات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کے يہ خيالات کتنے متنازعہ، قابل نفرت يا انقلابی نوعيت کے ہیں، انھيں دہشت گردی کے ايسے عمل کے مساوی قرار نہيں ديا جا سکتا جس میں بے گناہ شہريوں کو ہلاک کر کے دانستہ اپنے سوچ کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کے لیے قتل وغارت غاری کا سہارا ليا جاتا ہے۔
ميں آپ کو يقين سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر امريکہ کے اندر کوئ فرد يا گروہ کسی دوسرے حلقے کے خلاف دہشت گردی کے کسی عمل يا ايسے کسی فعل کی منصوبہ بندی ميں ملوث پايا جائے تو مذہبی اور سياسی وابستگی سے قطع نظر انسانی جانوں کی حفاطت کو يقينی بنانے کے لیے رياست کے قانون کو نافذ کيا جائے گا۔
ميں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے مسلم، عرب، مشرق وسطی اور ايشيا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کے ضمن ميں قريب 800 واقعات کی تحقيقات کروائ۔ اب تک ان ميں 48 ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوئ ہے اور 41 افراد کو سزائيں بھی دی جا چکی ہيں۔ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے تعصب پر مبنی واقعات ميں اسٹيٹ اور مقامی انتظاميہ کی مدد سے 160 مقدمات درج کيے ہيں۔
آپ اس بارے ميں تفصيلات اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1234963&da=y
مارچ 2011 ميں واشنگٹن کے ايک تھنک ٹينک سينٹر فار سيکورٹی پاليسی نے ايک تحقيق پيش کی جس ميں يہ واضح کيا گيا مذہبی تعصب پر مبنی جرائم يعنی کہ "ہيٹ کرائم" جو کہ امريکی مسلمانوں کے خلاف ہوئے ان ميں سال 2001 کے بعد سے بتدريج کمی واقع ہوئ ہے اور ان کی تعداد سينکڑوں ميں رہ گئ ہے اور يہ تعداد يہوديوں کے خلاف ہونے والے متعصب جرائم کے مقابلے ميں کم ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall