فرعون کےمحل میں اذان کی آواز

نیلم

محفلین
فرعون کے محل میں اذان کی آواز!!

فرعونوں نے مصر پر تین ہزار تین سو سال تک حکومت کی تھی. تاریخ میں 33 فرعون گزرے ہیں. ہر فرعون کو تقریبا سو سال تک اقتدار ملا تھا. حضرت موسیٰ کے ساتھ آخری فرعون کا مقابلہ ہوا، یہ پانی میں ڈوبا اور اس کے ساتھ ہی فرعونوں کا اقتدار بھی ڈوب گیا. فرعون ختم ہو گئے اور ریت نے ان محلات کو ڈھانپ لیا. یہ ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے بن گئے. ان ٹیلوں کے ارد گرد لکسر کا شہر آباد ہو گیا
. ان ٹیلوں میں سے کسی ایک ٹیلے پر ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی گئی.

1900 کے شروع میں کھدائی شروع ہوئی فرعون کا محل ریت سے برآمد ہوا تو پتا چلا کہ یہ مسجد فرعون کے خصوصی دربار کے اوپر بن گئی تھی. یہ مسجد آج تک قائم ہے. اوپر مسجد اور نیچے فرعون کا دربار ہے.
کل شام سورج اپنی شعائیں سمیٹ رہا تھا. ہم فرعون کے سنگی ستونوں کے درمیان کھڑے تھے. سورج کی سرخ شعائیں نیل کے پانیوں میں غسل کر رہی تھیں. شام لکسر کے افق پر آہستہ آہستہ پر پھیلا رہی تھی.. میں پانچ ہزار سال پرانے محل کی کھڑکی میں کھڑا ہو گیا. میرے دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی سرخی نیل کے پانیوں میں گھل گئی.

اور اس کے ساتھ ہی فرعون کا محل اذان کی آواز سے گونج اٹھا. میں نے زندگی میں ہزاروں اذانیں سنی ہیں. لیکن فرعون کے محل میں اذان کی آواز کا اپنا ہی سرور تھا. موزن کی آواز کا اتار چڑھاؤ محل کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا. اور دیواروں پر لکھی تحریروں کو پیغام دے رہا تھا، دنیا کے ہر فرعون کو زوال ہے. لیکن الله کا پیغام دائمی ہے.

اس دنیا میں اشھد ان لا الہٰ الا الله کے سوا ہر چیز فانی ہے. مجھے اذان کی اس آواز میں فرعون کا مجسمہ اداس دکھائی دیا. مجھے محسوس ہوا جیسے وہ اپنے گزرے تکبر پر نوحہ کناں ہو.

از جاوید چودھری ، کالم " نیل کے ساحل سے "
 
فرعون کے محل میں اذان کی آواز!!

فرعونوں نے مصر پر تین ہزار تین سو سال تک حکومت کی تھی. تاریخ میں 33 فرعون گزرے ہیں. ہر فرعون کو تقریبا سو سال تک اقتدار ملا تھا. حضرت موسیٰ کے ساتھ آخری فرعون کا مقابلہ ہوا، یہ پانی میں ڈوبا اور اس کے ساتھ ہی فرعونوں کا اقتدار بھی ڈوب گیا. فرعون ختم ہو گئے اور ریت نے ان محلات کو ڈھانپ لیا. یہ ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے بن گئے. ان ٹیلوں کے ارد گرد لکسر کا شہر آباد ہو گیا
. ان ٹیلوں میں سے کسی ایک ٹیلے پر ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی گئی.

1900 کے شروع میں کھدائی شروع ہوئی فرعون کا محل ریت سے برآمد ہوا تو پتا چلا کہ یہ مسجد فرعون کے خصوصی دربار کے اوپر بن گئی تھی. یہ مسجد آج تک قائم ہے. اوپر مسجد اور نیچے فرعون کا دربار ہے.
کل شام سورج اپنی شعائیں سمیٹ رہا تھا. ہم فرعون کے سنگی ستونوں کے درمیان کھڑے تھے. سورج کی سرخ شعائیں نیل کے پانیوں میں غسل کر رہی تھیں. شام لکسر کے افق پر آہستہ آہستہ پر پھیلا رہی تھی.. میں پانچ ہزار سال پرانے محل کی کھڑکی میں کھڑا ہو گیا. میرے دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی سرخی نیل کے پانیوں میں گھل گئی.

اور اس کے ساتھ ہی فرعون کا محل اذان کی آواز سے گونج اٹھا. میں نے زندگی میں ہزاروں اذانیں سنی ہیں. لیکن فرعون کے محل میں اذان کی آواز کا اپنا ہی سرور تھا. موزن کی آواز کا اتار چڑھاؤ محل کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا. اور دیواروں پر لکھی تحریروں کو پیغام دے رہا تھا، دنیا کے ہر فرعون کو زوال ہے. لیکن الله کا پیغام دائمی ہے.

اس دنیا میں:" اشھد ان لا الہٰ الا الله" کے سوا ہر چیز فانی ہے. مجھے اذان کی اس آواز میں فرعون کا مجسمہ اداس دکھائی دیا. مجھے محسوس ہوا جیسے وہ اپنے گزرے تکبر پر نوحہ کناں ہو.

از جاوید چودھری ، کالم " نیل کے ساحل سے "

:happy:
 

نایاب

لائبریرین
فرعون کے محل میں اذان کی آواز!!

فرعونوں نے مصر پر تین ہزار تین سو سال تک حکومت کی تھی. تاریخ میں 33 فرعون گزرے ہیں. ہر فرعون کو تقریبا سو سال تک اقتدار ملا تھا. حضرت موسیٰ کے ساتھ آخری فرعون کا مقابلہ ہوا، یہ پانی میں ڈوبا اور اس کے ساتھ ہی فرعونوں کا اقتدار بھی ڈوب گیا. فرعون ختم ہو گئے اور ریت نے ان محلات کو ڈھانپ لیا. یہ ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے بن گئے. ان ٹیلوں کے ارد گرد لکسر کا شہر آباد ہو گیا
. ان ٹیلوں میں سے کسی ایک ٹیلے پر ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی گئی.

1900 کے شروع میں کھدائی شروع ہوئی فرعون کا محل ریت سے برآمد ہوا تو پتا چلا کہ یہ مسجد فرعون کے خصوصی دربار کے اوپر بن گئی تھی. یہ مسجد آج تک قائم ہے. اوپر مسجد اور نیچے فرعون کا دربار ہے.
کل شام سورج اپنی شعائیں سمیٹ رہا تھا. ہم فرعون کے سنگی ستونوں کے درمیان کھڑے تھے. سورج کی سرخ شعائیں نیل کے پانیوں میں غسل کر رہی تھیں. شام لکسر کے افق پر آہستہ آہستہ پر پھیلا رہی تھی.. میں پانچ ہزار سال پرانے محل کی کھڑکی میں کھڑا ہو گیا. میرے دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی سرخی نیل کے پانیوں میں گھل گئی.

اور اس کے ساتھ ہی فرعون کا محل اذان کی آواز سے گونج اٹھا. میں نے زندگی میں ہزاروں اذانیں سنی ہیں. لیکن فرعون کے محل میں اذان کی آواز کا اپنا ہی سرور تھا. موزن کی آواز کا اتار چڑھاؤ محل کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا. اور دیواروں پر لکھی تحریروں کو پیغام دے رہا تھا، دنیا کے ہر فرعون کو زوال ہے. لیکن الله کا پیغام دائمی ہے.

اس دنیا میں اشھد ان لا الہٰ الا الله کے سوا ہر چیز فانی ہے. مجھے اذان کی اس آواز میں فرعون کا مجسمہ اداس دکھائی دیا. مجھے محسوس ہوا جیسے وہ اپنے گزرے تکبر پر نوحہ کناں ہو.

از جاوید چودھری ، کالم " نیل کے ساحل سے "
بلاشک اللہ ہی کی ذات پاک باقی رہ جانے والی ہے ۔۔۔
 

نیلم

محفلین
ہم لوگ زندگی بھر الله تعالیٰ کو بڑی بڑی عبادتوں اور بڑی بڑی خدمتوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں، ہم اسے مسجدوں ،کلیسائوں، سینا کوکا
اور مندروں میں تلاش کرتے ہیں، ہم اسے قرآن مجید، بائبل اور توریت میں کھوجتے ہیں اور ہم اس تک پہنچنے، اس کو پانے کے لئے
بڑے بڑے ہسپتال،بڑے بڑے خیراتی ادارے اور بڑے بڑے دارالامان بناتے ہیں-
لیکن ہمارا خدا ہماری زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات ،ہماری چھوٹی چھوٹی نیکیوں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے کاموں میں ہمارا انتظار
کرتا رہتا ہے، وہ خدا جس تک پہنچنے کے لئے دنیا کے پرہیز گار پوری زندگی سجدے کرتے ہیں اور جسے پانے کے لئے متقی عمر بھر روزے
رکھتے ہیں وہ خدا انسانوں کو پانی کے ایک گلاس، ایک وقت کی روٹی، ایک چادر اور سردیوں کی منجمد راتوں میں ایک رضائی کے عوض مل سکتا ہے-
وہ خدا زمانے کے مارے ،بے بس لوگوں کے پاس بیٹھ کر صدیوں سے ہمارا انتظار کر رہا ہے-

ہم الله تعالیٰ کی جس رحمت اور جس کرم کو قبلوں اور کعبوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں، الله کی وہ رحمت اور وہ کرم اس کے بندوں کی چھوٹی چھوٹی امیدوں اور چھوٹی چھوٹی حسرتوں میں چھپی رہتی ہے ۔
مجھے محسوس ہوا خدا تک پہنچنے کے تمام راستے اس کی مظلوم، بے بس اور نادار مخلوق کے دل سے گزرتےہیں ۔
اور یہ راستے کبھی فقط بیس روپے اور کبھی پانی کے ایک گلاس کے عوض کھل جاتے ہیں-
مجھے محسوس ہوا خدا ہمیشہ چھوٹے لوگوں کے دلوں میں رہتا ہےاور جب تک ہم ان لوگوں کے دلوں پر دستک نہیں دیتے
اور جب تک ان کا لوگوں کا دل ہمارے لئے نہیں کھلتا اس وقت تک ہم الله تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے -

از جاوید چوھدری ، زیرو پوائنٹ 5 ، صفحہ 26
 

نیلم

محفلین
مجھے یہاں دنیا کے نامور نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے، فرائیڈ کے پاس شہر کا امیر ترین شخص آیا اور اس سے کہنے لگا " فرائیڈ میرے پاس دنیا کی تمام نعمتیں موجود ہیں لیکن میرے دل میں قرار نہیں،مجھے سکون اور خوشی کا احساس نہیں ہوتا، تم میرا علاج کرو "

فرائیڈ مسکرایا اور اسے مشورہ دیا "آپ روزانہ سو مارک کے پھول خریدا کریں اور یہ پھول بچوں اور بوڑھوں میں تقسیم کردیا کریں آپ کو خوشی بھی مل جائے گی اور سکون بھی"

وہ شخص گیا اور اس نے پھول تقسیم کرنا شروع کر دیے وہ ایک ماہ بعد واپس آیا تو اس کے چہرے پر خوشی بھی تھی اور سکون بھی-

فرائیڈ نے اس وقت اسے بتایا خوشی ہمیشہ چھوٹی چھوٹی بے لوث خدمتوں میں ملتی ہے،لیکن لوگ اسے بڑے کاموں اور بڑی نیکیوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں لہٰذا لوگ عمر بھر اس سے محروم رہتے ہیں-

مجھے یہاں اپنے ایک دوست بھی یاد آرہے ہیں، میرے یہ دوست جب مایوس ہوتے ہیں تو یہ بازار سے فٹ بال،کرکٹ کی گیندیں اور جاگرز خریدتے ہیں اور کچی آبادیوں میں جا کر بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور جب یہ کچی آبادی سے باہر نکلتے ہیں تو ان کا دل خوشی سے لبریز اور چہرہ سکون کی دولت سےمالا مال ہوتا ہے-

وہ اکثر کہا کرتے ہیں ،الله تعالیٰ جو سکون دس روپے کی گیند سے دیتا ہے ،وہ سو سال کی عبادت میں نہیں ملتا، وہ کہا کرتے ہیں بڑی نیکیوں کے راستے لمبے اور چھوٹی نیکیوں کی مسافتیں چھوٹی ہوتی ہیں چناچہ الله تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے چھوٹی نیکیاں کرو وہ تمہیں فورا مل جائے گا -

از جاوید چودھری ، زیروپوائنٹ5
 
مجھے یہاں دنیا کے نامور نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے، فرائیڈ کے پاس شہر کا امیر ترین شخص آیا اور اس سے کہنے لگا " فرائیڈ میرے پاس دنیا کی تمام نعمتیں موجود ہیں لیکن میرے دل میں قرار نہیں،مجھے سکون اور خوشی کا احساس نہیں ہوتا، تم میرا علاج کرو "
ویسے محترمہ نیلم ، مجھے سگمنڈ فرائیڈ کی کئی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ باتیں تو بہت سی جاوید کی بھی اچھی لگتی ہیں
 

نیلم

محفلین
ویسے محترمہ نیلم ، مجھے سگمنڈ فرائیڈ کی کئی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ باتیں تو بہت سی جاوید کی بھی اچھی لگتی ہیں
اچھا تو ہم سے بھی شیئر کریں سگمنڈ فرائیڈ کی اچھی اچھی باتیں :)
میں نے تو صرف اتنا ہی پڑھا ہےنیٹ پہ ان کے بارے میں ،،
سگمنڈ فرائیڈ مشہور ماہر نفسیات ہے اور اس کی تھیوری نفسیاتی ماہرین کے لئے نشان راہ ہے۔ موصوف فاقہ اور روزے کا قائل تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ روز ے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہوتا ہے جسم انسانی میں مختلف ادوار آتے ہیں۔ روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے۔ روزہ دار کو جسمانی کھچاؤاور ذہنی ڈپریشن سے سامنا نہیں ہوتا۔ :!:
 
اچھا تو ہم سے بھی شیئر کریں سگمنڈ فرائیڈ کی اچھی اچھی باتیں :)
میں نے تو صرف اتنا ہی پڑھا ہےنیٹ پہ ان کے بارے میں ،،
سگمنڈ فرائیڈ مشہور ماہر نفسیات ہے اور اس کی تھیوری نفسیاتی ماہرین کے لئے نشان راہ ہے۔ موصوف فاقہ اور روزے کا قائل تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ روز ے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہوتا ہے جسم انسانی میں مختلف ادوار آتے ہیں۔ روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے۔ روزہ دار کو جسمانی کھچاؤاور ذہنی ڈپریشن سے سامنا نہیں ہوتا۔ :!:
اس کی خوابوں والی تحقیقات بھی پیش کیجیے گا
 
ارے میں آپ سے پوسٹ کرنے کا بول رہی ہوں اور آپ مجھے :D
میں تو پھر صدیوں بعد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ تب تک میں مٹی کے نیچے ہوں گا۔ ابھی تو تو صرف ”افکارِ مسلم“ ہی لکھے جاتے ہیں۔ ہاں! کل اردو وکیپیڈیا پر اُس کے بارے میں پڑھا تھا ”وکی معیار کا تعارف، جو اس پر پورا نہیں آتا تھا“
 

نیلم

محفلین
دسمبر کی ایک صبح، اس نے اپنے آپ سے سوال کیا: "خدا کو کیسے یاد کیا جاتا ہے؟"

تو منظر تحلیل نہ ہوا ،ذہن لاجواب نہ ہوا، اس نے سوچا، "خدا سے مدد مانگنا ہی اسے یاد کرنا ہے. " ہیلپ می گاڈ " اور پھر " گاڈ" اس کے ذہن سے ہی چپک گیا، حتی کہ وہ ہر سانس کے ساتھ آسمان سے سفید دودھیا روشنی کی ایک لکیر اترتے دیکھتی اور بے اختیار دہراتی "ہیلپ می گاڈ "

یہ تین لفظ اس نے کتنی بار دہراے ،اسے نہیں یاد . بس یاد ہے تو... اتنا کہ جب تک جاگتی "ہیلپ می گاڈ" کے الفاظ دہراتی چلی جاتی. جب سو جاتی تو اس کا دل دہراتا رہتا. بلکل اسی طرح جس طرح اس کی نیلی،چمک دار اور عمیق آنکھیں چہرے کا حصہ تھیں، جس طرح تیز دھار ہونٹ اس کے وجود میں شامل تھے، جس طرح وہ اپنے سنہری بالوں کے بغیر ادھوری تھی اور جس طرح وہ اپنی نرم آواز کے بغیر نا مکمل تھی.

مارچ کی اس صبح میڈیکل سائنس کی دنیا دھماکے سے لرز اٹھی. سینٹ لوئس کے اس ہسپتال نے کیتھرائن کو مکمل طور پر صحت یاب قرار دے دیا. کینسر کی ایسی مریضہ جو تین ماہ سے موت کی طرف بھا گ رہی تھی اور جو امید کھو چکی تھی،
الوداع کہنے سے پہلے کیتھ نے امریکی ڈاکٹروں کو صحت کا نسخہ بتا دیا. "ہیلپ می گاڈ"

ڈاکٹروں نے حیرت سے پوچھا: " وٹ ڈو یو مین" کیتھ نے بتایا: " جب اس نے ان تین لفظوں کا ورد شروع کیا تو سب سے پہلے اس کا درد ختم ہوا، پھر زخم پر کھرنڈ اترے اور آخر میں ایک نئی اور صحتمند جلد نے زخم کے نشان تک مٹا دِیے
.
کیتھ کے اس کیس نے میڈیکل سائنس کو نئی "ڈای مینشن " دے دی، پورے امریکا میں سروے کیا گیا، پتا چلا، خدا پر مظبوط یقین رکھنے والے مریض "نان بلیورز " کے مقابلے میں جلد صحت یاب ہوتے ہیں.

از جاوید چودھری ، زیرو پوائنٹ
 
Top